مینارِ پاکستان کی اہمیت اور حیثیت

مینارِ پاکستان کی اہمیت اور حیثیت

مکرمی! حکایات مجنوں میں آتا ہے کہ ایک روز لوگوں نے عجیب منظر دیکھا کہ مجنوں دیوانہ وار لیلیٰ کے در و دیوار سے لپٹ کر بوسے لے رہا ہے۔ اس پر لوگوں نے طرح طرح کے تبصرے کئے اور کہا کہ دیوانہ ہے اس کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے۔ یہ سُن کر فرزانہ عاشق صادق تڑپ اٹھا اور یوں گویا ہوا کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ کہنے لگا لوگو! مجھے ان پتھروں سے کچھ نہیں لینا دینا جس کی محبت ان سے چھن چھن کر آ رہی ہے، میں تو اسے بوسے دے رہا ہوں۔ اس حکایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو مینار پاکستان بظاہر اینٹوں اور پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے لیکن ان کا اینٹوں اور پتھروں سے تحریک پاکستان کی معطر یادیں وابستہ ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ ”لاالٰہ الااللہ“ ۔ ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“ جیسے ایمان ساز اور ایمان افروز نعرے چھن چھن کر آ رہے ہیں۔ 23 مارچ 1940ءکا عہد ساز اور تاریخ ساز دن اسلامیان برصغیر کی زندگی میں باد بہاری اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو قومیں اپنے ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی ہے۔ آج کل ہمارا حال اور مستقبل دھندلا نظر آتا ہے لیکن روشن ماضی ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ اے کاش کوئی ایمان اور خلوص سے مینار پاکستان کو دیکھے تو سہی۔ ہم محض جلسوں اور احتجاج کے لئے اس کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کا تقدس بھلا دیتے ہیں۔ ایک بہت ہی زیرک اور سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی پر حال ہی میں مینار پاکستان کے سائے تلے انکشاف ہوا ہے کہ ہم قرارداد پاکستان سے انحراف کر رہے ہیں اور قائداعظمؒ کے پاکستان سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ اے کاش! حشر سے پہلے حشر بپا ہو جاتا اور اقبالؒ پارک کی دھرتی بول اٹھتی کہ بس بھئی بس۔ کشمیر کے لہو رنگ چناروں اور بہتی آبشاروں کو گواہ بنا کر پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے موصوف نے قدم قدم پر قرارداد پاکستان اور قائداعظمؒ کے پاکستان سے بے وفائی کی اور دل کی بجائے شکم کو ترجیح دی۔ کوچہ جاناں میں کھڑے ہو کر محبت کے بلند بانگ دعوے کرنا آسان ہے لیکن راہ یار میں کف پا کو لہو لہان کرنا اتنا آسان نہیں۔ بجائے شرمندگی اور ندامت کے عوام کو گمراہ کرنے پر اس کے سوا کیا کہا جائے ”چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد“ چوری اور اس پر سینہ زوری۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ     تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(طارق غیور سندھو محلہ مغلپور تحصیل و ضلع منڈی بہاﺅالدین)

ای پیپر دی نیشن