آج کل میڈیا پر خوبصورت ماڈل ایان علی کا تذکرہ وزیروں شذیروں اور سیاستدانوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا ذکر بھی ایان علی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اس نے جو باتیں اپنی تازہ ترین ڈائری میں کی ہیں تو باقی ماندہ ماڈلز کو بھی کسی نہ کسی طرح کچھ دیر کے لئے جیل کی سیر کر لینا چاہئے۔ خبروں اور تصویروں میں رہنا اس طرح آسان ہو گیا ہے۔ فلمسٹار میرا کے معاملات اور مصروفیات پرانی ہو گئی ہیں۔ خوبرو قیدی ماڈل ایان علی نے کہا ہے کہ جیل کی زندگی اتنی مشکل نہیں ہے جتنی آج تک سمجھتی رہی۔ اس کی تفصیل ایان علی کے حوالے سے میں ابھی بیان کروں گا۔ پہلے یہ بات کہ عدالت میں ایک پیشی کے لئے تیاری پر ایان علی نے ایک لاکھ 69 ہزار روپے خرچ کر ڈالے۔ صرف میک اپ پر 45 ہزار روپے بوتیک کے سوٹ پر 52ہزار روپے وغیرہ وغیرہ۔
حیرت ہے کہ پہلے دنوں میں وہ منہ چھپاتی ہوئی عدالت میں آئی اور اب اتنی تیاری سے کہ سب لوگ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینل پر اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ عورتوں کو کپڑوں کے ڈیزائن اور جیولری وغیرہ کی وجہ سے دلچسپی ہوتی ہے اور مرد اسے صرف دیکھتے ہیں۔
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
ہم پہلے اسے نہیں جانتے تھے بلکہ اس کا نام تک سنا ہوا نہیں تھا۔ سنا ہے وہ بہت خوبصورت ہے۔ تو کیا خوبصورت عورتوں کو میک اپ کی ضرورت ہے؟ جو فطری حسن ہے اس کا تو کوئی متبادل ہی نہیں ہے۔ جو میک اپ فطرت کرتی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ خدا کی قسم مجھے گہرے میک اپ کی عورتیں بالکل اچھی نہیں لگتیں۔ ہلکا میک اپ تو خیر جائز ہے اور میرے خیال میں عورت کو سجنے سنورے کا مکمل موقع ملنا چاہئے مگر اس طرح وہ اپنا آپ بگاڑ نہ لے۔ اپنے آپ کو سنوارے۔ پہلے زمانے میں سولہ سنگار ہوتے تھے۔ آج کل صرف میک اپ ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ اس پر ہزاروں لاکھوں روپے بھی خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ معلومات ایک دوست نے لکھی ہیں اور ایک اخبار کے بیک پیج پر شائع ہوئی ہیں۔ اسے کسی طرح اس ڈائری کے کچھ اوراق کی کاپی مل گئی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی اور خوشی بھی ہوئی۔ کبھی حیرانی شادمانی سے آگے نکل جاتی ہے۔ ایک پیارے بچے کی معصوم حیرت سے بڑھ کر کوئی چیز خوبصورت نہیں ہے۔ تحیر اس کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے جبکہ دولت اپنے پائوں سے اکثر لگی ہوئی مٹی سے بھی کمتر ہوتی ہے۔ بچے کا بینک بیلنس نہیں ہوتا اور اس کا ووٹ بھی نہیں ہوتا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ بچپن کا بھولپن اگر پچپن برس تک زندہ رہے تو زندگی خوبصورت ہو جائے۔
مجھے خوشگوار حیرت یہ ہوئی تھی کہ ایک خوبصورت اور اب مشہور ماڈل ایان علی ڈائری بھی لکھتی ہے۔ اس کی ڈائری کسی ادیب کے ہاتھ لگ جائے تو وہ کئی افسانے بنا سکتا ہے۔ اگر وہ ادیب واقعی ادیب ہو تو سعادت حسن منٹو کی یاد تازہ ہو سکتی ہے۔
اس کے ساتھ پہلے اسے ’’صدر‘‘ زرداری رحمان ملک اس کا بھائی اور چند لوگ تعلق رکھتے ہوں گے۔ اب اس کی شناسائیوں اور آشنائیوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ اب کئی لوگ اس کی زیبائش آرائش اور آسائس کے لئے فکرمند ہوں گے۔
اسے جیل اب اچھی لگنے لگی ہے۔ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی نے جیل کو اپنا سسرال کہا تھا جبکہ ان کی شادی بھی نہ ہوئی تھی۔ شادی تو ایان کی بھی نہیں ہوئی۔ یہ بات بالواسطہ ہے ورنہ ایان اور ریحان دو مختلف دنیائیں ہیں۔ ایان ’’مبارکباد‘‘ کی مستحق ہے کہ سقراط، دانتے، روسو، والٹر، ابوالکلام، شورش کاشمیری، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور کئی نامور لوگوں کے جیل کے تاثرات اپنے ایک جملے میں لمحہ فکریہ بنا دیے ہیں جو جیل ایان علی کو ملی ہے سب قیدیوں کو ملے۔ کئی لوگ کچھ بھی کر کے جیل جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ ایان ان کے لئے سفارش کر دے کہ ان کو بھی ایسی ’’جیل‘‘ ملے
جب سے وہ اریسٹ ہوئی ہے وہ شاندار ’’ریسٹ ہائوس‘‘ میں ہے۔ بھٹو وزیراعظم تھا۔ جیل میں لکھی ہوئی اس کی کتاب ایان علی ضرور پڑھے۔ ابوالکلام کی غبار خاطر بھی پڑھے اس میں چائے پینے کے حوالے سے جو انہوں نے لکھا ہے اسے پڑھ کر شراب پینے کی یاد آ جائے گی۔ شورش کاشمیری نے کہا کہ اپنی مرضی ختم ہو جانے کا نام قید ہے۔ لگتا ہے کہ اپنی مرضی تو جیل میں کرنے کی آزادی ایان علی کو ملی ہوئی ہے۔ شورش نے 65ء کی جنگ ستمبر کے لئے بڑے نغمات لکھے جو ’’تمغہ خدمت‘‘ کے نام سے ان کی کتاب میں موجود ہیں۔ جنگ ختم ہوئی تو شورش کو جیل بھیج دیا گیا۔ یہ بھی تمغہ خدمت سے عظیم خطیب اور بہادر انسان سید عطاللہ شاہ بخاری کا نام انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں پہلے نمبروں پر ہے۔ میرے خیال میں آزادی کے لئے آرزو اور جدوجہد آزادی سے بڑھ کر عظیم صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری زندگی کیا ہے۔ آدھی جیل میں گزر گئی۔ آدھی ریل میں گزر گئی۔ کیا ایان علی نے کبھی بخاری صاحب کا نام بھی سنا ہے۔ شورش نے لکھا ہے کہ جیل میں جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ خیالات کی بازی گری ہے۔ بازی گری کی کئی قسمیں ہیں۔ ممکن ہے کہ ایان علی کے پاس ایسی بازی گری ہو جو خیالات پر اثرانداز نہ ہو صرف حالات بدلنے کی مہارت رکھتی ہو۔
اب میں ایان کی ڈائری سے کچھ باتیں بغیر تبصرے کے عرض کرتا ہوں۔ ’’جیل میں تبدیل ہونے والے روزمرہ کے اہلکاروں کے سوا باقی سب کچھ ویسے ویسا ہے۔ آج بھی ٹیلی فون کالز سن کے سر میں درد محسوس ہوا تاہم خادمائوں کی خدمت نے تازہ دم کر دیا۔ جیل سے نکل کر صبح صبح پیشی پر جانا میک اپ اور ملبوسات کا انتخاب؟ بڑا صبر آزما کام ہے۔ ورنہ میں ایک دن ورزش نہ کروں تو میرا جسم ٹوٹنے لگتا ہے۔‘‘