سات مئی کو لوئر دیر میں ضمنی انتخاب ہوا ، سات مئی ہی کو برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے ، دس پاکستانی نڑاد باشندے بھی برطانوی انتخابات میں کامیاب ہوئے جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ ناز شاہ ، شبانہ محمود ، نصرت غنی ، تسمینہ شیخ اور یاسمین قریشی کی کامیابی میں ہمارے لئے کئی سبق ہیں۔ اس سے پہلے سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ کی پہلی مسلم خاتون وزیر ہونے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ وہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت میں مذہب اور کمیونیٹیز وزیررہی ہیں ، ان تمام خواتین کا تعلق روایتی مڈل کلاس مسلم گھرانوں سے ہے جن کے والدین پاکستان سے ہجرت کر کے برطانیہ گئے اور وہاں سخت محنت کے بعد اپنی ایک علیحدہ شناخت اور مقام بنایا۔ اگر یہ چاروں خواتین برطانیہ کے بجائے پاکستان میں پیدا ہوتیں اور ان کا تعلق لوئر دیر جیسے کسی علاقے سے ہوتا تو زرا سوچیئے کیا ہوتا ؟
انتخابات میں حصہ لینا تو دور کی بات انہیں ووٹ دینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا جاتا۔ لوئر دیر کے ضمنی الیکشن میں خواتین کو ووٹ دینے سے روکنا ایک شرمناک عمل تو تھا ہی مگر اس کا جو جواز ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے سامنے آیا وہ نہایت ہی مایوس کن اور افسوسناک ہے ، لوئر دیر کے ضمنی الیکشن میں ہماری سیاسی جماعتوں کے دوہرے معیار بھی کھل کر سامنے آگئے۔ ان جماعتوں کے دوہرے چہرے بے نقاب ہو گئے ، کراچی ، لاہور اسلام آباد کیلئے ایک چہرہ اور دوردراز علاقوں کیلئے دوسرا چہرہ۔ مجھے یاد ہے سترہ اپریل کی شام تھی اور حلقہ تھا این اے دو 246، جہاں شارع پاکستان پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق خواتین کے ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کر رہے تھے ، میں اس جلسے میں خود موجود تھی ، سراج الحق نے کہا کہ کراچی کی خواتین تبدیلی چاہتی ہیں تو جماعت اسلامی کوووٹ دیں، ہم خواتین کو تعلیم یافتہ، خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں ،اگر ہماری حکومت آئی تو ہم خواتین کی ملازمت کے اوقات میں کمی کرینگے۔ ہم خواتین کو وراثت میں حصہ دلائیں گے۔
یہ جماعت اسلامی کا ایک چہرہ تھا، جس میں وہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نکلنے کا کہہ رہے تھے، اور ان کو وراثت میں حصہ دلانے کا دعوی بھی کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی کا دوسرا چہرہ لوئر دیر میں دکھائی دیا جہاں امیر جماعت اسلامی کے اپنے حلقے کی خواتین کو ووٹ دینے سے محروم کر دیا گیا اور خود امیر جماعت اسلامی نے اس کیلئے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو اپنے مردوں پر اعتبار ہے وہ گھریلو مصروفیات کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکیں۔
مگر سراج الحق صاحب یہ بھول گئے کہ کراچی کی خواتین کو بھی کھانا پکانا اور دیگر گھریلو مصروفیات ہوتی ہیں، مگر ان کو جلسوں میں بھی بلایا جاتا ہے اور ان سے ووٹ ڈالنے کی اپیل بھی کی جاتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے یہ بھی دلیل دی کہ لوئر دیر میں قبائلی کلچر کی وجہ سے خواتین ووٹ ڈالنے نہیں جاتیں ، مگر سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی تو قبائلی روایات کے بجائے اسلامی روایات کے تحفظ کی امین ہونے کا دعوی کرتی ہے ، اور اسلام تو قبائلی کلچر کی جاہلانہ روایات کو ختم کرنے آیا تھا ، اسلام خواتین کو مردوں کے برابر حقوق عطا کرتا ہے بلکہ بعض جگہ تو خواتین کو مردوں پر فوقیت دی گئی ہے مگر لوئر دیر میں جماعت اسلامی نے سیاسی مصلحت کے باعث اسلامی روایات پر قبائلی روایات کو فوقیت دی۔ امیر جماعت اسلامی کو جب خود اپنے علاقے میں اسلامی روایات پر قبائلی روایات کو ترجیح دینا پڑی تو قوم ان سے کس طرح یہ توقع رکھ سکتی ہے کہ وہ باقی ملک میں اسلامی روایات نافذ کر سکیں گے ؟ اسی طرح اے این پی کے بھی دو چہرے دکھائی دیئے ، اے این پی خود کو ایک لبرل سیکولر جماعت کہتی ہے۔ مگراسکی روشن خیالی کا چراغ بھی لوئر دیر کی قبائلی روایات کے سامنے بجھ گیا اور اس نے خواتین کو ووٹ کے جائز حق سے محروم رکھنے کے فیصلے میں سب کا ساتھ دیا۔ جس جماعت کی صوبائی صدر ایک خاتون، بیگم نسیم ولی خان رہی ہوں، اسکی جانب سے خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے دینے جیسے جرم میں شرکت پر انتہائی افسوس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں اس وقت ایک روشن خیال اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت کی حکومت ہے ، مگر تحریک انصاف کے اپنے صوبے میں خواتین کو ووٹ کا حق نہیں دیا جا رہا۔ تحریک انصاف کا امیدوار تو اس حلقے میں نہیں کھڑا تھا ، مگر اس نے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا اور خواتین کو ووٹ سے محروم رکھنے کے جرم پر کوئی آواز بلند نہیں کی، کیا یہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا فرض نہیں تھا کہ وہ لوئر دیر میں ہونےوالے اس غیر آئینی قدم پر حرکت میں آتی۔ تحریک انصاف کراچی کے حلقہ این اے 246 میں یہ شور تو مچاتی رہی کہ یہاں خوف کی فضا ہے اور لوگوں کو گھروں سے ووٹ ڈالنے کیلئے نکلنے نہیں دیا جاتا ، مگر سات مئی کو اپنے صوبے میں 53 ہزار خواتین کو گھروں پر بند کر کے ووٹ ڈالنے کیلئے نہ نکلنے دینے کے جرم پر خاموش کیوں رہی ؟ قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا۔آئین پاکستان میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ووٹ ڈالنا ہر پاکستانی کا ایک بنیادی حق ہے ، مگر یہاں حکومت اور الیکشن کمیشن حکومت حسب معمول بے حس و حرکت دکھائی دیئے۔ کیا آئین اور قانون صرف کتابی باتیں ہیں اور اس پر عمل کروانا حکومت کی ذمہ داری نہیں ؟ اس وقت ملک میں انتخابی دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے۔ کیا کسی حلقے میں 53 ہزار ووٹروں کو گھر سے نہ نکلنے دینا اور ووٹ نہ ڈالنے دینا بھی ایک قسم کی دھاندلی نہیں ہے ؟ کیا صرف مرد ووٹروں کے ووٹ سے ہونے والا الیکشن جائز اور قانونی کہلا سکتا ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے ؟