حکومتِ پنجاب کے ترجمان جناب زعیم قادری نے 10 مئی کو باغ ( آزاد کشمیر) کی انتخابی مہم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے وزیراعظم میاں نواز شریف پر کی جانے والی تنقید پر انہیں ’’ چھوٹو زرداری‘‘ کا خطاب دِیا ہے اور کہا ہے کہ ’’چھوٹو زرداری اپنے قد سے بڑی باتیں کر رہے ہیں ‘‘۔ اُدھر بلاول بھٹو زرداری کی پھوپھی محترمہ فریال تالپور نے باغ میں ہی تقریر کرتے ہُوئے جوشِ خطابت میں کہا کہ ’’آج کے جلسے میں بی بی شہید ہمارے ساتھ ہیں اور اُن کا لختِ جگر بلاول بھٹو زرداری شہید بھی ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
باپ کی موجودگی میں بیٹا کتنی ہی زیادہ عُمر کا کیوں نہ ہو جائے اور کتنے ہی بڑے رُتبے پر فائز کیوں نہ ہو جائے ’’ چھوٹو‘‘ ہی کہلاتا ہے جناب آصف علی زرداری اپنے قبیلے ۔ زرداری قبیلے کے سردار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اُن کی مبیّنہ وصیت کے مطابق جنابِ زرداری چھوٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کر کے خود اُس کے ماتحت شریک چیئرمین بن گئے تھے ۔ اِس طرح اُنہوں نے اپنے بیٹے کا قد اپنے قد سے بڑا کردِیا تھا۔ مرزا غالبؔ نے نہ جانے اپنے دَور کے کِس ’’چیئرمین ‘‘ کے بارے میں کہا تھا… ؎
بھرم کُھل جائے ظالم، تیری قامت کی درازی کا
اگر اِس طُرّہ پُر پیچ و خَم کا پیچ و خَم نِکلے!
شاید پیپلز پارٹی کے کچھ "Uncles" اپنے اپنے دِل میں کُڑھتے ہوں لیکن وہ بلاول بھٹو شہیدؔ کے طُرّۂ پُر پیچ و خَم کے آگے سر جھکاتے ہیں ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کو چیئرمین بلاول اپنے انکل کا درجہ دے چکے ہیں لیکن ’’ضرورت شعری ‘‘ کے تحت اب انہیں ’’ کرپشن کا سردار ‘‘ اور ’’ مودی کا یار‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ ایک دور میں جناب آصف زرداری بھی میاں نوازشریف سے کہا کرتے تھے۔ ’’ میاں صاحب! ۔ ہماری یاری نسلوں تک چلے گی‘‘۔ چھوٹو زرداری شہیدؔ نے وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں جو لہجہ اپنایا ہے حسین نواز اور حسن نواز تو خیر سیاست میں نہیں ہیں (پانامہ لِیکس میں ہیں ) لیکن اگر حمزہ شہباز اُسی لہجے میں جنابِ آصف زرداری کو مخاطب کرے تو کیا ہوگا؟۔ جنابِ زرداری پنجاب میں آئیں تو پنجابی بولتے ہیں پنجابی کا ایک اکھان ہے ۔ ’’ رکھ پتّ رکھا پتّ‘‘ ( یعنی۔ عِزّت کرو اور عِزّت کرائو!‘‘۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے جنابِ زرداری اِس کے حل میں مخلص تھے اور نہ ہی میاں نوازشریف مخلص ہیں ۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی جنابِ زرداری نے کہا تھا ’’ کیوں نہ 30 سال تک مسئلہ کشمیر "Freeze" (منجمد) کردیا جائے ؟‘‘۔ جنابِ زرداری نے مولانا فضل اُلرحمن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی مقرر کِیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی مولانا صاحب کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا۔ چھوٹو زرداری شہید ؔکو ، وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ’’ شیروں کے شکاری‘‘ زرداری صاحب کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا ۔ ’’شاعرِ سیاست‘‘ چھوٹو زرداری شہیدؔ کی سیاست کے بارے میں کہتے ہیں…؎
کرتا ہے ،کشمیر کے بارے میں ،کیا وعدے و عِید
خوب بڑھکیں مارتا ہے ، چھوٹو زرداری شہیدؔ
جنابِ گیلانی کے مُریدوں کی دُعا؟
اگست 2012ء میں (اُن دنوں وزیراعظم) سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا۔ ’’ اگر مَیں وزیراعظم نہ بھی رہا تو میری پِیری اور گدّی تو میرے پاس رہے گی‘‘۔ جنابِ گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ چلی گئی لیکن اُن کی پِیری اور گدّی اُن کے پاس رہی۔ 9 مئی 2013ء کو اُن کابیٹا علی حیدر اغواء ہُوا ۔ تین سال تک جنابِ گیلانی کی گدّی تو قائم رہی لیکن اُن کی پِیری کو گھن لگ گیا تھا۔ اُن کے لاکھوں مریدوں نے آپس میں کُھر پُھسر شروع کردی تھی۔ ’’ جو پیر اپنی دُعا سے اپنے بیٹے کو بازیاب نہیں کراسکتا وہ ہماری مشکلیں کیسے حل کرے گا؟‘‘ میرا خیال ہے۔ جنابِ گیلانی کی آزمائش کا دَور تو گزر گیا اور اب اُن کے مریدوں کی دُعائوں سے اُن کے خلاف مختلف مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے۔ گیلانی صاحب کو اُن کے اپنے مریدوں کی دُعائوں سے کِتنا فائدہ پہنچا ؟۔ یہ بھی اُن کی کرامت کا نتیجہ ہے ۔
’’مُلاقات ہُوئی، بات نہیں ہُوئی؟‘‘
مختلف حلقوں میں وزیراعظم نوازشریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات کو اپنی اپنی مرضی اور پسند کے معنے پہنائے جا رہے ہیں ۔بات سے بات بنانے کے ماہرین کی طرف سے کہا جا رہا ہے۔ ’’جنرل راحیل شریف جنابِ وزیراعظم کو یہ مشورہ دینے آئے تھے: ’’جنابِ وزیراعظم!پانامہ لِیکس کا مسئلہ جلد حل کردیں کیونکہ اِس سکینڈل کے اثرات قومی سلامتی اور سکیورٹی چیلنجز پر پڑ رہے ہیں ‘‘۔ لیکن وفاقی وزیر جناب محمد زبیر کے مطابق ’’ملاقات میں پانامہ لِیکس کا ذکر تک نہیں آیا‘‘۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ جنابِ وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف کی ملاقات "One On One" تھی ۔ پھر میڈیا والوں نے یہ خبر کیسے اُڑا دی کہ آرمی چیف نے وزیراعظم صاحب کو پانامہ لِیکس کا مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دِیا ہے۔ بجا فرمایا خواجہ صاحب نے کہ جب وزیر دفاع کو عِلم تک نہیں تو ملاقات میں پانامہ لِیکس پر ہونے والی بات کا میڈیا کو کیسے پتہ چل گیا؟۔
خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’پانامہ لِیکس کا مسئلہ سیاسی نہیں رہا ‘‘۔ درست فرمایا خواجہ صاحب نے مسئلہ تو لُوٹ کھسُوٹ کا ہے لیکن وزیراعظم اور اُن کے بیٹوں اور بیٹی کے اِس مسئلے میں الجھنے کے بعد تھوڑا سا سیاسی بھی ہوگیا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ’’جنرل راحیل جنابِ وزیراعظم کی طبیعت (مزاج) کا پوچھنے آئے تھے اور وزیراعظم صاحب نے انہیں لندن میں ہونے والے اپنے چیک اَپس کے بارے میں بتایا ۔ عجیب بات ہے کہ کسی بھی نیوز چینل نے جنابِ وزیراعظم کو ، جنرل صاحب سے گُل دستہ وصول کرتے ہُوئے نہیں دکھایا ۔
فرض کیا کہ جنرل صاحب نے جنابِ وزیراعظم سے پانامہ لِیکس کے انکشافات پر بات نہیں کی تو کیا وہ بھی خواجہ آصف صاحب کے اس نظرئیے سے متفق ہیں کہ پانامہ لِیکس کی فلم پٹ گئی ہے؟ ‘‘۔ حالانکہ یہ فلم تو باکس آفس پر ہٹ ہوگئی ہے ۔ جنرل راحیل شریف جانتے ہوں گے کہ اِس فلم کا ’’ کھڑکی توڑ‘‘ مہینہ چل رہا ہے ۔ جنرل راحیل نے فوج میں کرپشن برداشت نہیں کی اور اُنہوں نے 12 افسروں کو جِن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل ، تین بریگیڈئیرز اور ایک لیفٹیننٹ کرنل بھی شامل ہے جبری طور پر ریٹائرڈ کردیا ۔ جنرل صاحب اعلان کر چُکے ہیں کہ پاکستان کے ہر شعبے سے کرپشن کا قلع قمع کردِیا جائے گا‘‘۔ جب تک پانامہ لِیکس اور دوسرے ’’ لِیکس‘‘ کی الزام یافتہ مختلف شخصیات کی بریت نہ ہو جائے ، شورو غوغا ختم نہیں ہوگا اور اگر شورو غوغا بڑھ گیا تو جنرل صاحب اور اُن کی زیرِ کمان فوج کی ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی۔ اگر واقعی جنابِ وزیراعظم سے جنرل صاحب کی ملاقات میں پانامہ لِیکس کے بارے میں کوئی بات نہیں ہُوئی تو آئندہ ملاقات میں ہو جائے گی۔ جنابِ وزیراعظم کے حمایتی وہ وزرائ، مشیران ، معاونین خصوصی اور ن لیگ قائدین جو فی الحال پانامہ لِیکس کے انکشافات اور اُن میں جنابِ وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے افراد کے خلاف معاملات کو "Lightly" لے رہے ہیں کی تسلی و تشفی کے لئے ’’شاعرِ سیاست ‘‘ کہتے ہیں…؎
سچّ ہے کہ مری، اُن سے ملاقات ہُوئی ہے
لیکن یہ غلط ہے کہ ، کوئی بات ہُوئی ہے