سری نگر/ نئی دہلی (اے این این) بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے مسئلہ کشمیر کوعالمی عدالت انصاف میں لیجانے کی تجویز مستردکرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر یہ کوئی حل ہوتا، تو ایسا بہت پہلے کیا جاچکا ہوتا۔ چیف جسٹس نے کشمیر کے فوری حل کونا ممکن قرار دیا اور کہا کہ صرف محبت سے کشمیر کوملک کے ساتھ جوڑے رکھا جاسکتا ہے۔ معروف قانون دان اور مصنف امن ایچ ہنگورانی کی نئی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام شہری کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر اس قدر پیچیدہ مسئلہ ہے کہ اس طرح کا ریڈی میڈ حل کسی کام کا نہیں ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو بہت پہلے کیا جاچکا ہوتا۔ انہوں نے کہاکشمیریوں نے دو ملکی نظریہ کو مسترد کر دیا تھا جو ملک کی تقسیم کا بنیاد بنا۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اپنی نوجوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا 1989تک کشمیر پر امن تھا، زیورات سے لدی خواتین باہر جاتی تھیں اور کوئی انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاتا، وہاں کوئی اسلحہ نہیں تھا، مجھے یاد ہے جموں میں کشمیریوں کا مذاق بنایا جاتا تھا، لوگ کہتے تھے کشمیری صرف ایک ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اور وہ ہے کانگڑی تاہم انہوں نے واضح کیا کہ مسئلہ مکمل طور پر ملی ٹینسی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہونا نہیں تھا۔اس ضمن میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم میں سے کتنے لوگ یہ بات ضمانت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کو اسی طرح کی جمہوری آزادی دی گئی جس طرح ملک کے دیگر حصوں کو دی گئی؟ کشمیر میں ہم نے سنا ہے کہ مئیروں کا انتخاب کیا جاتا ہے، لیکن وہاں ڈپٹی کمشنر تھے جو ریٹرننگ آفیسروں کی حیثیت سے تمام کاغذات نامزدگی رد کرکے کسی مخصوص پارٹی کے امیدوار کو کامیاب قرار دیتے تھے، اس طرح ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی حکومت بن جاتی تھی۔ تنازعہ کشمیر کے حل پر جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہا کہ جموں کشمیر اب ایک منقسم سماج بن کر رہ گیا ہے۔ جموں کے لوگ دفعہ 370 کا خاتمہ چاہتے ہیں، لداخ کے عوام خطے کو مرکز کے زیرانتظام لانے کے حق میں ہیں، کشمیر کے لوگ آزادی کی خواہش کرتے ہیں جبکہ کشمیری ہندو اپنے لئے علیحدہ ہوم لینڈ کی مانگ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس صورتحال کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے فوری حل کو خارج از امکان قرار دیا اور کہا یہ حالات کشمیر کو ایک منقسم گھر بناتے ہیں لہٰذا اس کا حل آسان نہیں، مجھے کوئی فوری حل نظر نہیں آرہا۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کے جس ایک پہلو پر کام کیا جاسکتا ہے، وہ کشمیریوں کی خواہشات کو تبدیل کرنا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے کہاوادی کشمیر کے لوگوں کو ان کا راستہ تبدیل کرنے پر صرف ایک صورت آمادہ کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے ان پر محبت کی برسات۔ چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہاسب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا، جب ہم نے دو ملکی نظریہ مسترد کرکے مل جل کر رہنے کو ترجیح دی، اس کی آبیاری کرنے کی ضرورت ہے، ہم صرف پیار محبت کے ذریعے ہی کشمیر کو اپنے ساتھ جوڑے رکھ سکتے ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پنڈتوں کی وادی واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھاکشمیری پنڈتوں کی وہ نسل جس کا وادی کے ساتھ رشتہ ہے اور وہاں رہے ہیں ان کی نئی نسل ریاست سے باہر خوش ہے، کون کشمیری پنڈت واپس کشمیر جائے گا۔