قرآن پر ذرا گہرے غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے پیغمبرؑ کو جس دور میںمبعوث کرتا ہے توحید،رسالت اور آخرت کے علاوہ اُ س دور میں جو بُرائی عام ہوتی ہے اس برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بھی مبعوث کرتا ہے۔ اورپیغمبر ؑ اللہ کی ہدایت کے مطابق، اُس برائی پر اعلانیہ چوٹ لگاتا ہے۔ اور اُس دور کی دنیا کے سامنے پیغمبرؑ کامیا ب ہوتا ہے ۔
قرآن شریف میں واقعہ بیان ہوا ہے کہ سید ناابراہیم ؑ کے زمانے میں بت گری بڑ ے عروج پر تھی ابر اہیم ؑ کا باپ آذر سب سے بڑا شاہی بت تراش تھا۔ ابراہیم ؑ نے کس طرح شاہی بت خانے میں جا کر بتوںکوتوڑا پھر بڑے بت کے ہاتھ میں کلہاڑا رکھ دیا۔لوگوں میں شور مچا کس نے بت توڑے ہیں۔ لوگوں کے جمع ہونے پر ابراہیم ؑ نے کہا اس بڑے بت سے معلوم کروجس کے ہاتھ میں کلہاڑا ہے۔ لوگوں نے کہا یہ تو بت ہے کس طرح بتا سکتا ہے۔ ابراہیم ؑ نے کہا جو اپنے ساتھ والوں کے متعلق نہیں بتا سکتا تم اس کی پوجا کر تے ہو۔ اِس طرح اللہ کے پیغمبرؐ نے قوم کے جشن کے دن جب سب لوگ جمع تھے، اس بت تراشی پر چوٹ لگائی جو ایک برائی تھی اور اُس دور میں عروج پر تھی۔
اسی طرح سیدنا موسیٰ ؑ کے زمانے میں جادو بڑے زوروں پرتھااللہ نے اپنے پیغمبرؑ کو عصاء عطا کیا۔ جو سب سے بڑا اژدہا بن جاتا تھا۔موسی ؑکوللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ فرعون کے دربار میں جاوہ بڑا خود سر ہو گیا ہے ۔ حضرت مو سیٰ ؑ فرعون کو دین کی دعوت دی اور اپنے سچے ہونے کے لیے معجزہ دکھایا جس پر فرعون نے کہا یہ جادو ہے۔اوریہ جادو کے زور سے ہمیں حکومت سے بے دخل کرناچاہتاہے فرعون نے اپنے وزیروں سے کہا سارے ملک سے جادو گر بلاو ٗ تاکہ موسی ؑ کا مقابلہ کیا جائے۔ سارے ملک سے جادو گر آ گئے اورجشن کا دن مقابلے کے لیے طے ہوا ۔جادو گر وں نے موسی ؑ سے کہا تم پھینکو۔جادوگروں نے رسیاں پھینکیں جو سانپوں کی طرح دکھائی دینے لگیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنا عصا پھینکا جو ایک اژدھا بن گیا اورسارے مصنوعی سانپوں کو کھا گیا اللہ نے اپنے پیغمبرؑ کے ذریعے بھرے دربار کے اندر جادئو کی برائی پر چوٹ لگا ئی اور سب جادو گر اسی وقت اللہ پر ایمان لے آئے ۔اللہ نے جادو کو غلط ثابت کر دیا۔فرعون پر اللہ کے پیغمبر ؑ کا رُعب چھا گیا اور عوام کے دل سے جادو کا ڈر ختم ہو گیا اور بلا آخر اللہ نے فرعون کو حضرت موسیٰ ؑکے مقابلے میں شکست دی اور اسے سمندر میں غرق کر دیا۔ حضرت محمد ؐ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا جو فصاحت اور بلاغت کا ایک نمونہ اور ایک معجزہ ہے جبکہ عرب کے شعرا دوسری قوموں کو گونگا بہرا کہتے تھے اور اپنی عربی زبان پر بڑا فخر جتا تے تھے اور اپنا کلام خانہ کعبہ کی دیوار پر لکھ دیا کرتے تھے اورلوگوںسے داد وصول کیا کرتے تھے۔ حضرت محمد ؐ نے بھی اللہ کا کلام سورت (کوثر) خانہ کعبہ کی دیوار پر لکھوا دی۔ عرب کا سب سے بڑا شاعر لبید فوراً ایمان لے آیا اور پکار اٹھا یہ کلام اللہ کا ہے کسی انسان کا نہیں۔ اسطرح اللہ نے رسول ؐ کے ذریعے قریش پر چوٹ لگائی ۔اور اُن کا گھمنڈ توڑا۔آخری بات کیا اِس قرآنی رہنمائی سے دین کا کام کرنے والوںکو اِس طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات پر غورکریں اور دیکھیں کہ اِس دور میں برُائی کی جڑ کہاں ہے۔ ہمارے نزدیک برائی کی جڑ سیکولر حکومت ہیں۔ سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ،دینی، اخلاقی ،قانونی یعنی ہر چیز پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ پارلیمنٹ جو چاہتی قانون پاس کرتی ہے۔اور اُ سے بزور قوت عوام پر نافذ کرتی ہے لوگ بے بس ہوتے ہیں کچھ نہیںکر سکتے۔ مسلمانوں کو اِس سمت میں اپنی ترجیحات پر غور کرنا چاہیے تا کہ برائی ختم ہو اور دنیا کی گاڑی صیح سمت پر چلنے لگے اور بگاڑ ختم ہو۔ اگر مسلمان اِس بحث میں لگے رہے کہ دین میں سیاست نہیں ہے صرف تبلیغ ہے ۔ہم کہتے ہیں جہاں تبلیغ کا کام مکمل ہو تا ہے۔ وہاں سے اقامت دین کا کام شروع ہو جا تا ہے۔لوگوں کو تبلیغ کریں مگر ساتھ ساتھ بُرائی کے منبع کی طرف، یعنی حکومت کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں ۔مسجد کے ایک امام صاحب کو کتنی چھان بین کے بعد رکھا جاتا ہے جس نے صرف نماز پڑھانی ہوتی ہے مگر حکو مت میں نمائندگی کے لیے لوگوں کو پرکھا نہیں جاتا اور غلط ، نا اہل ،رشوت خور،جاہل،دین بیزار،دوسروں کے آلہ کار، اور دین کی سمجھ نہ رکھنے والوں کو رایٗ دے کر آگے بھیج دیا جاتاہے۔وہ پارلیمنٹ میںبیٹھ کر اللہ اور رسول ؐ کے خلاف قانون بناتے ہیں اور عوام کو مجبوراً اُس قانون پر عمل کرنا ہوتا ہے۔کیا پارلیمنٹ سود کو حلال نہیں کہتی ؟کیا حکومت نے سود کے حق میں شریعت کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی؟ جب کہ قرآن میں سود کے خلاف اللہ اور رسول ؐ کی جنگ قرار دیا گیا ہے۔کیا حدود آرڈینس میں ردوبدل کے ذریعے ڈکٹیٹر مشرف کی حکومت نے زنا اور فحاشی کو عام نہیں کیا ۔کیا عائلی قوانین میں پارلیمنٹ نے قرآن کے خلاف قانون سازی نہیں کی۔؟کیا پارلیمنٹ آئے دن خلاف ِاسلام قانون سازی نہیںکرتی رہتی؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی برائی ہو سکتی ہے؟ کیا حکومتیں اللہ کے غضب کو دعوت نہیں دے رہیں؟ ہمارے نزدیک سیکولر پارلیمنٹ بُرائی کی جڑ ہے۔کیا اس کی جگہ اسلامی پارلیمنٹ کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ؟ یقیناً کرنا چاہیے۔لہذا ہمیں اِس بحث کو ختم کرنا چاہیے کہ اسلام میں سیاست نہیں ہے ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں اسلام ہے ہی عین سیاست۔ اگر آپ سیاست کی تعریف کریں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ’’ لوگوںکے معاملات احسن طریقے چلانے کی تدبیر کو سیاست کہتے ہیں‘‘۔کیا اسلام انسان کو لوگوں کی بھلائی اور معاملات احسن طریقے سے چلانے کی ہدایت نہیں دیتا؟کیا سارے قرآن کا مخاطب انسان نہیں ہے؟ ۔کیارسول اللہؐ کافرمان نہیں کہ میں مکارم اخلاق کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں؟ یقیناہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ الیکشن کے وقت اپنی بستیوں میں سے نیک اسلام سے محبت اور اس کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کو تلاش کر کے پارلیمنٹ کے اندر بھیجنا چاہیے تاکہ قانون سازی صحیح ہو سکے اور خلاف اسلام قانون پاس نہ ہوں اور اسلامی نظام قائم ہو، خوش حالی ہو،امن امان ہو، اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان سے رزق کے دروازے کھول دے،بھائی چارے کا نظام قائم ہو،اور مدینے میں رسول ؐ کے ہاتھوںقائم کی گئی اسلامی ریاست کی جھلک نظر آئے، رسول اللہ ؐ کے بعد خلفایٗ راشدین کے ہاتھوں قائم کی گئی اسلامی ریاست کی طرز کی حکومت قائم ہو، اللہ مسلمانوں سے خوش ہو، اللہ ہم سے راضی ہو جائے ہم اللہ سے اجر کے مستحق ہوں اور آخرت کے اندر جب رسولؐ اللہ سے ملاقات ہو تو کر کہہ سکیں آپ کے مکمل کیے ہوئے دین کو ہم نے قائم رکھا ۔ رسول ؐ ہم سے خوش ہواور پھر ہم جنتّ کے مستحق ہوں سکیں۔