ڈان لیکس کے ایشو نے گزشتہ کچھ دنوں سے قومی سلامتی کے حوالے سے ایک ایسے بحران کی صورت اختیار کر رکھی تھی جس نے سول ملٹری تعلقات کو ایک ایسی TENSION اور اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا جس سے ایک طرف عجیب غیر یقینی صورتحال میں پوری قوم اور دفاعی حکومت کی مشینری کو تدبذب کا شکار بنا رکھا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور خاص طور پر سول ملٹری تعلقات میں ا ن دو اہم قومی اداروں میں باہم ٹھن جانے کا رنگ دیکر اسے بڑھا چڑھا کر اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے پاکستان آرمی اور سول حکومت کے درمیان اختلافات کی ایسی ڈرائونی خلیج بنا کر پاکستانی عوام اور بیرونی دنیا کے سامنے عوام کے ذہنوں پر ایک خوفناک ٹکرائو کی تصویر کا نقشہ کھینچا جیسے پاکستان خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ انسانوں کے ذہنوں کو پریشان کرنے والی جنگ جس کے کئی چہرے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ دشمنوں کی سازشوں اور خطرناک چالوں سے پوری طرح آگاہ اور باخبر تھے۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ اور سفارشات پر عملدرآمد میں کچھ تحفظات کے باعث غیر ضروری اور قبل از وقت بعض غلط فہمیوں کو جو وزیراعظم ہائوس سے ایک حکم نامہ جاری ہونے اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے ایک ٹویٹ سے پیدا ہونے والی فضا کو معمول پر لانے کے لئے سول ملٹری قیادتوں کو باہمی ملاقات سے مداخلت کرنی پڑی۔ بس اتنی سی بات تھی کہ اختلافات کی تہہ در تہہ برف دیکھتے ہی دیکھتے پگھل گئی جس کے نتیجہ میں تقریباً ایک سال سے سلگتی ڈان لیکس کی چنگاریاں ٹھنڈی پڑ گئیں خدا کا شکر ہے کہ ڈان لیکس کا بحران آرمی چیف آف اسٹاف اور وزیراعظم کی ذاتی توجہ کے نتیجہ میں احسن طریقے سے طے ہوکر ختم ہو گیا۔ ڈان لیکس کی رپورٹ پر ٹویٹ کی ضرورت نہ تھی۔ جسے وہ واپس لیتے ہیں۔ جنرل غفور نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم اور حکومت پاکستان نے ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عملدرآمد خصوصی طور پر ذمہ دار متعلقہ افراد کو سزا وار ٹھہرانے پر جو اقدامات کئے ہیں وہ انہیں سراہتے ہیں۔فوج کے ترجمان کی طرف سے ایسے بیان پر باہمی غلط فہمیوں کے ازالہ میں بہت مدد ملی ہے۔ متعلقہ افراد کو سزا وار ٹھہرائے جانے والے سابقہ وزیر اطلاعات اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو پہلے سے ہی ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور اسی طرح وزیراعظم کے سابقہ اسپیشل اسسٹنٹ برائے ا مو ر خارجہ طارق فاطمی کو بھی قصور وار قرار دیتے ہوئے اپنے عہدہ سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد احمد فواد کے بارے میں تحقیقات کرنے کا حکومت نے یقین دلایا ہے تاکہ اگر وہ بھی ڈان لیکس کی اشاعت میں سہولت کار پائے گئے تو ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ابھی تک وزیراعظم اپنے اس وعدہ پر قائم ہیں کہ ڈان لیکس پر حکومت کی طرف سے مقرر شدہ تحقیقاتی رپورٹ مناسب وقت پر ضرور شائع کی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی آرمی قیادت کو یقین دلایا گیا ہے کہ نشان زدہ افراد کے خلاف جو بھی سزا تجویز کی جائے گی اس پر قانون کے مطابق عمل کیا جائے گا۔مجھے یقین ہے کہ مندرجہ بالا تمام فیصلے پاکستان کی ریاست کے اعلیٰ ترین مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئے گئے ہیں اور ان فیصلوں میں کسی فرد یا ادارے کی ہارجیت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسے فیصلے وزیراعظم اور آرمی قیادت کی طویل المدت سٹرٹیجک ویژن اور موجودہ مشکل اور پیچیدہ علاقائی حالات اور عالمی تناظر میں پاکستان کی موجودہ قیادت کی مدبرانہ سوچ کے مظہر ہیں۔اس موقع پر راقم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وطن عزیز اپنی تاریخ کے ایک نہایت مشکل اندرونی و بیرونی چیلنجز سے دوچار ہے۔ صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اس جنگ میں پوری قوم نے اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لئے جو عظیم قربانیاں دی ہیں ان کی لاج رکھنا ہمارا قومی فریضہ ہے کہ وطن کی حفاظت میں اپنی جانوں کی قربانیاں دینے والے شہیدوں کو ہم خراج تحسین پیش کرنا نہ بھولیں۔ اسی لئے افواج پاکستان نے ملک بھر میں اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں کے محافظوں کو ہدیہ عقیدت پیش کرنے کے لئے نہ صرف مختلف فوجی چھائونیوں بلکہ GHQ نیو ی ہیڈ کوارٹرز اور پاکستان ائیر فورس ہیڈ کوارٹرز میں شاندار اور نہایت باوقار یادگار شہیداں تعمیر کی ہیں۔ جہاں بیرون ملک سے آنے والے معزز مہمان اور اندرون ملک مختلف تقریبات پر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا کے ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کی عسکری قیادت پاکستان آرمی کو عالمی سطح پر دنیا کی چوٹی کی بہترین افواج میں تسلیم کرتے ہوئے پاکستان آرمی اور اس کی قیادت داد شجاعت دیتے ہیں۔
اس موقع پر راقم کو یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جب میں پاکستان کے اندر نہ صرف بعض سیاسی ACTIVISTS بلکہ پارلیمنٹرین‘ سیاستدانوں اور انتہائی قابل احترام وفاقی اور صوبائی وزراء کو ARMY BASHING میں لطف اندوز ہوتے ہوئے ٹیلی ویژن پر دیکھتا اور سنتا تو میری گردن شرم سے جھک جاتی ہے اور آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے ہیں کہ ہم کتنے بدنصیب لوگ ہیں کہ ایسے اداروں کو بھی بدنام کرنے سے بھی نہیں جھجھکتے جن کے وقار اور قومی کردار پر آئین پاکستان بھی فخر سے عزت و احترام کا حکم دیتا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان پورے عالم اسلام میں واحد نیو کلیئر قوت ہے۔ پاکستان کی میزائل و نیو کلیئر صلاحیت وطن عزیز کی آزادی کی سب سے قیمتی ضمانت ہے۔ ARMY BASHING کرتے ہوئے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک طاقتور آرمی کی غیر موجودگی یا کمزوری کی صورت میں ہماری ایٹمی صلاحیت خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ یہ راز ہمارے دشمنوں کو خوب معلوم ہے اور وہ دن رات اس صلاحیت اور قوت سے محروم کرنے کے لئے اس کے محافظوں یعنی افواج پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے اپنے عوام کی نظروں میں گرانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ میری عرض یہ ہے کہ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتور قومیں اور ممالک دن رات اپنی برتری اقوام عالم پر برقرار رکھنے کے لئے ہر سال اپنی ARMED FORCES کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اربوں ڈالرز کا اضافہ کرتی ہیں اور ادھر ہم ہیں کہ دن رات ہاتھ دھو کر اپنے اس ادارے پر ہر طرح کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں جس کی مثال دنیا کے دو سو کے قریب ممالک میں لاکھ ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملے گی۔ خدا ر ا اپنی بہادر افواج پر فخر کرنا سیکھیں اگر خدانخواستہ ہماری افواج کمزور ہو جائے اور انہیں اپنے عوام کا اعتماد حاصل نہ رہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کمزور ہو کر خطرات میں گھر جائے گی۔
آثار کچھ بہار کے روشن ہوئے تو ہیں
May 12, 2017