اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورة الرحمٰن میں فرمایا" فبا ای الاربکما تکذبان" " اورتم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے" قرآن حکیم کی یہ آیت اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ اللہ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازہ ہے۔ کہیں تو انسانوں کو انفرادی طور پر انمول ذہنی اور جسمانی صلاحیتں عطاکیں اور کہیں انسانی معاشرت کو مجموعی طور پر اِن نعمتوں سے نوازا جن کا دوسری مخلوقات میں کوئی تصور نہیں۔ ایسی نعمتوں میں کسی قوم کو بہترین رہنما کا میسر آنا ہے۔ انسانیت کے یہ محسن اپنے انقلاب آفیریں نظریات تعلیما ت اور خدمات سے اپنی قوموں کو یاد رہتے ہیں ۔ اور اِن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اِن کے بتائے ہوئے راہ عمل پر چل کر ہی یہ قومیں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ تحریک پاکستا ن ہمیں ایک ایسے ہی محسن کی یاد دلاتی ہے جس نے مسلمانو ں کو اِن کے راہ عمل پر ڈالا اور اِن کی منزل کو اِن کے قریب تر کر دیا۔ قوم کا یہ محسن ڈاکٹر محمد اقبال شاعر مشرق اور حکیم الامت کے القابات سے نوازا گیا۔ علامہ اقبال نے اُس دُور میں آنکھ کھولی جب برصغیر کے مسلمان سیاسی، معاشرتی اور معاشی بد حالی کا شکار تھے۔ ماضی کا حاکم ،حال کا محکوم بن چکا تھا۔ ذلت اور رسوائی اِس کا مقدر بن چکی تھی۔ مایوسیوں نے اِن کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ اِن حالات میں ایک ایسے رہبر اور رہنما کی ضرورت تھی جو نا صرف اِن کی مایوسیوں کا تدارک کرتا بلکہ اِن کو ایسی سمت اور راہ عمل عطا کرتا ہے جس پر چل کر وہ اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو دوبارہ حاصل کر لیتے ہیں۔ علامہ اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ شاعری نثر نگاری اور فلسفہ اِن کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ انہوں نے جلد ہی مسلمانوں کی مشکلات کو بھانپ لیا ۔ اور اِن کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے لیے ایک مجاہد کی حیثیت سے میدان عمل میں اتر آئے تھے۔ وہ جلد ہی اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کی اِس حالت زار کی بڑی وجہ اِن کی دین سے دُوری ہے۔ لہذا انھوں نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ " مغرب کی ترقی کا رازپیچھے جانے میں ہے" یہاں تک کہ ہم قرون اولیٰ میں پہنچ جائیں " انھوں نے مسلمانوں کو دین کی طرف راغب کرنے کی پوری کوشش کی۔ اِس لیے اِن کی تعلیمات میں مذہب کا پہلو حاوی رہا۔ افراد کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ،حکومت ہو یا سیاست مذہب کا پہلو ہر جگہ فائق نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں ۔
نظام بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اپنے انہی دینی نظریات پر انہوں نے نظریہ آزادی کی بنیاد رکھی ۔ انہیں ہر لحاظ سے مسلمانوں کی آزادی عزیز تھی۔ انہوں نے بار ہا مسلمانوں کوآزادی کا درس دیا ہے ۔
عشق و آزادی ،ہار و زیست کا سامان ہے
عشق میری جان ہے، آزادی میرا ایمان ہے
عشق پہ قربان کروں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
انہوں نے اپنے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اس حوالے سے انہیں مصور پاکستان کا خطاب ملا۔ امتِ مسلمہ کے اِس سپوت نے جس آزاد ریاست کا خواب دیکھا اِس کی تعبیر آج دُنیا کے سامنے ہے۔ اور اِسی کی بدولت ہم اِس دُنیا میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مخصوص راہ کا تعین کیا اور نوجوانوں کے لیے اِن کا پیغام مایوسی کے گھپ اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر سامنے آیا۔ آپ نے فرمایا
ملے گا مقصود کا‘ اُس کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ‘ جس کا چراغ
نہیں آتی ہے فرصت ‘فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حُر کے لیے ‘جہاں میں فراغ
ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر تھے تو اپنے نوجوانوں سے تعلیمی معاملات سے متعلق سختی سے پیش آتے تھے۔ کسی نے علامہ سے اِن کے اس رویے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا " نالائق نوجوان" میری قوم کے افراد نہیں ہو سکتے۔اس لیے وہ کہتے ہیں ۔
سبب کچھ اور ہے‘ تو جسے خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا‘ بے زری سے نہیں
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
جہاں میں جب بھی‘ میراجوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے،سکندری سے نہیں
موجودہ دُنیا عقل پرستی کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہو چکی ہے۔ عقلیت کے افق پر آئے دِن نئے نئے تصورات کے جمگاتے ستارےابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں مگر بھٹکی ہوئی انسانیت کو کہیں منزل کا نشان ملتا ہے اور نہ کوئی سکون و فرار کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ اِن حالات میں علامہ اقبال کے افکار و خیالات کو پہلے سے بھی زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اِ س طرح ممکن ہے کہ اقبالیات کو تعلیم کے ہر مرحلے پر متعارف کروایا جائے اور اقبال کی تصانیف کے تراجم قومی اور علاقائی زبانوں میں شائع کیے جائیں۔
شاعرمشرق کی آفاقی شاعری
May 12, 2017