نہ جانے پاکستان کی سیاست میں ایسا کیوں ہے کہ کسی دوسرے کی بڑی خوشی کوبھی چھوٹی سی خوشی ماننے سے پس و پیش کیا جاتا ہے اور چھوٹی سی بری خبر کو بڑی خبر بناکر پیش کرنے پر فخر کیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے تک سِول ملٹری ریلیشن کی بو سونگھنے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے لوگ اپنے پتوں پر ایسے اِترا رہے تھے جیسے ان کے پاس تینوں یکے آگئے ہوں۔ بو سونگھنے والے پیشہ وروں نے بگل سننے کا انتظار کرنے کے لئے اُس وقت ہوشیار باش کردیا جب گزشتہ روز وزیراعظم کی قیادت میں ایک مشاورتی اجلاس ہواجس میں کہا گیا کہ ’’سویلین بالادستی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، نیوز لیکس رپورٹ کے تمام نکات پر عمل ہوگیا، نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں ، اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ پر تشویش ہے‘‘۔ سویلین حکومت کی یہ خوداعتمادی کسی اور راستے سے اپنا رزق تلاش کرنے والوں کے لئے مایوسی کی بات ہونی چاہئے تھی کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اُن کے شارٹ کٹ والے فارمولے پر ایک مرتبہ پھر پانی پھرتا نظر آرہا تھا لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ اور خاص طور پر نواز شریف کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی سویلین حکومت نے جمہوریت پر زعم کیا تو اُن کی رسی کھینچ لی گئی۔ سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے، اُس کے بعد نواز شریف کا نام آتا ہے۔ نواز شریف ایک مرتبہ نہیں بلکہ مسلسل تین مرتبہ ایسی خوداعتمادی دکھا چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ صدر غلام اسحاق خان کے خلاف زبان کھولی تو اپنی برخواستگی عدلیہ سے جیتنے کے باوجود حکومت نہ بچا سکے۔ دوسری مرتبہ ایسی ہی خوداعتمادی کے باعث اُن کا ٹکرائو جنرل مشرف سے ہوا۔ اس ٹکرائو کے نتیجے میںجنرل مشرف بیرک سے باہر نکل آئے جبکہ نواز شریف اندر چلے گئے۔ سِیولین بالا دستی کی خوداعتمادی میں نواز شریف نے جب ہیٹ ٹرک کر لی توبو سونگھنے والے پروفیشنلز کو یقین ہوگیا کہ ’’جی کا جانا ٹھہر رہا ہے، صبح گیا یا شام گیا‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو سابقہ ہسٹری بھی یہی تھی لیکن چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ابھرتے خطرات واپس چلے گئے۔ اِسے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اوردیگر ملٹری قیادت کی دانشمندی کہنا چاہئے کہ انہوں نے حالات کو سنبھال لیا۔ اِس وقت ملک کی تین سرحدیں گرم ہیں۔ پہلے صرف انڈیا ہوتا تھا، پھر افغانستان شامل ہوا، اب ایران بھی پاکستان کو دھمکانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ یہاں تک کہ ایران نے بھی انڈیا کی طرح را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگ لی ہے۔ اس پر بات آئندہ کسی کالم میں کی جائے گی کہ ایران نے اپنا ایسا رویہ پہلی مرتبہ ظاہر کیا ہے یا وہ اب کھل کر سامنے آنا چاہتا ہے یا وہ پہلے بھی کبھی کھل کر اور کبھی چھپ کر کھیلتا رہا ہے؟ بہرحال پاکستان کے تین گرم محاذوں کے سات چوتھا محاذ بھی گرم ہوچکا تھا جسے نیوز لیکس کا محاذ کہنا درست ہوگا۔ اِن چاروں محاذوں پر پاک فوج کو ہی لڑنا تھا۔ اپنی روایتی طاقت کے باوجود ملٹری قیادت نے جس طرح جمہوریت کی مضبوطی کو اہمیت دی ہے اُس سے فوج کے وقار میں اضافہ ہونا چاہئے لیکن ہمارے سیاسی رواج میں ایسا خاندانی مزاج نہیں ہے۔ مستقبل کے بیانات یا کالموں میں اِسے سویلین کی فتح یا کوئی ڈیل یا کوئی دبائو کہا جائے گا۔ حالانکہ اگر ایسا معاملہ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو ہم اُسے رول ماڈل کہتے جبکہ ہم اپنے ہاں کسی بھی رول ماڈل کو سرے سے ہی رول کر دینے کے عادی ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ معاملہ ایسے انداز سے بخیرو خوبی انجام کو پہنچا جس کی توقع نہیںکی جارہی تھی لیکن ہوسکتا ہے کچھ حلقے جے آئی ٹی کے انجام سے باخبر ہوں۔ بہرحال اس صورتحال میں نواز شریف کے سیاسی مخالفین ایک شدید کرب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ ’’ڈان لیکس حکومت اور فوج کا نہیں، قومی سلامتی کا معاملہ تھا۔ قوم کو اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا معاملہ طے ہوا ہے‘‘۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ’’ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ وہ الیکشن اس وجہ سے ہاریں کیونکہ ای میلز میں قومی سلامتی کا مسئلہ تھا۔ جس طرح ڈان لیکس طے ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ قانون ہے‘‘۔ عمران خان نے ڈان لیکس انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے لانے کا بھی مطالبہ کردیا۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان قومی سلامتی کے معاملات کو ملٹری قیادت سے زیادہ جانتے ہیں؟بات دراصل یہ ہے کہ عمران خان کے لئے یہ معاملہ قومی سلامتی سے زیادہ نواز شریف سے مخالفت کا تھا۔ اُن کا وہ سپنا ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا جس کی تعبیر وہ جلد دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح اعتزاز احسن بھی بولے کہ ’’حکومت مریم نواز کو بچانے میں کامیاب ہوگئی۔ وزارت داخلہ کے تازہ نوٹی فکیشن میں کوئی خاص بات نہیں کیونکہ اس میں بھی انہی تین لوگوں کا ذکر ہے جنہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ‘‘۔ اعتزاز احسن نے ٹوئٹ واپس لینے پر ڈی جی آئی ایس پی آر سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ اعتزاز احسن کے اس سخت ردعمل کے بعد پیپلز پارٹی والے مزید یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب اور سندھ کے لئے علیحدہ علیحدہ رویئے ہیں یا یہ کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو علیحدہ علیحدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ نیوز لیکس کے ایشو کا ختم ہونے کا معاملہ خواہ صحیح بھی ہو لیکن پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات بھی لڑنے ہیں اورہر الیکشن میں اپنی مظلومیت ظاہر کرکے ووٹ حاصل کرنا ان کے منشور کا پہلا نکتہ ہوتا ہے۔ سِول ملٹری ریلیشن کے اِس ٹھنڈے جھونکے پر مختلف سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار اپنی اپنی بولیاں بولیں گے لیکن نیوز لیک کے حوالے سے ٹوئٹ کے بعد سِول ملٹری ریلیشن میں پیدا ہونے والی ٹینشن کے بارے میں سنجیدہ صحافی اس بات کی کوشش کررہے تھے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجائیں۔ ہمارے میڈیا کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ صرف لڑائی ڈلواتے ہیں لیکن جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں میڈیا کے کچھ حلقوں نے لڑائی کی بجائے دوستی بھی کروائی۔ ان معاملات کا اچھے انداز سے طے ہونااچھے میڈیا کے اچھے کردار کی علامت بھی ہے سویلین ہوں یا ملٹری، دونوں پاکستانی ہیں۔ ملٹری بیرونی سرحدوں پر اُس وقت زیادہ چوکس رہ سکتی ہے جب اندرکے سویلین اُس کے ساتھ ہوں ۔ سب پاکستانی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیںاسی لیے بو سونگھنے والے پروفیشنلز کو نا کامی ہوئی ہے۔
بُو سونگھنے والے پروفیشنلز کو ناکامی
May 12, 2017