اسلام آباد( وقائع نگارخصوصی)جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ پارلیمنٹ کو فاٹا کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیارحاصل نہیں ہے‘ یہ تبدیلی قبائل کی وسیعمشاورت سے ہو سکتی ہے۔ ہم کشمیریوں کیلئے استصواب رائے کی بات کرتے ہیں مگر فاٹا کو یہ حق دینے کی بجائے ان پر انگریزوں کی طرح اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ فاٹا کی حیثیت بارے میں یک طرفہ گاڑی نہ چلائی جائے اس سے مشکلات پیدا ہوں گی اور بھی خطرناک ردعمل آ سکتے ہیں جو قطعاً پاکستان کیلئے سود مند نہیں ہو سکتے۔ پارلیمنٹ حیثیت میں ردوبدل تو کر سکتی ہے مگر فاٹا کی حیثیت کا تعےن کرنے کا مینڈیٹ پارلیمنٹ کے پاس نہیں ہے۔ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا اصرار کرنے والے بتائیںکہ کیا پارلیمنٹ کو پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سرحد کو تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟۔ فاٹا کی حیثیت کو تبدیل کرنا پارلیمنٹ سے باہر کا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ سکاٹ لینڈ ‘مشرقی تیمور‘ ترکی میں ریفرنڈم کی طرح قبائل سے وسیع تر مشاورت کے ذریعے ہونا ہے۔ ڈان لیکس مےں جس کا ذکر ہی نہیں تھا اسے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ بعض عناصر ان معاملات میں” پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ “بن گئے۔ سیاستدانوں کی سیاست اصولوں کے تحت ہوتی ہے۔ ٹویٹ کے معاملے کو اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت نے جس خوش اسلوبی سے حل کیاہے وہ انتہائی قابل تقلید مثال ہے ‘ کسی نے کسی کو آنکھ نہیں دکھائی ‘ باہمی رابطوں سے مسئلہ حل ہو گیا ہے انہوں نے یہ بات جمعرات کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں اپنے چیمبر میں صحافےوں سے غےر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سے میری ان کی دعوت پر ملاقات ہوئی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں سب سے مظلوم ترین چیز ”بیلٹ باکس “ہوتا ہے‘ آئندہ کے انتخابات کے حوالے سے نئے سیٹ اپ سے توقع ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا ‘ حکومت سے ہم راستے جدا نہیں کرتے جبکہ ہم سے راستے جدا کر دئیے جاتے ہیں۔ ۔ مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا کہ حکومت نے مذاکرات میں وعدہ کیا گےاکہ سمری میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے الفاظ درج نہیں ہےں اس فیصلے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے اور ریفرنڈم کی بجائے وسیع تر مشاورت کے فاٹا کی نئی حیثیت کا فیصلہ ہونا ہے۔ فاٹا کے شراکت داروںکا تعین کون کرے گا۔ اس لئے قبائل سے وسیع تر مشاورت کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹر ی سیفران میرے ساتھ بات چیت کے بعد سمری میں وسیع تر مشاورت کے الفاظ شامل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے یہی چٹ اپنی جیب میں لے کر گئے تھے۔ ہم فاٹا کی خیبر پختونخوا اسمبلی میں نشستوں کے تعین کی کسی سمری کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 2013ءکے انتخابات میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم اور دیگر جماعتیں قریب قریب تھیں مگر فیصلے کہیں اور ہوئے کسی اور جگہ سے فیصلے آ جاتے ہیں۔ اب نیا سیٹ اپ آ چکا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے آزادانہ فیصلوں کو تسلیم کیاجائے گا اور وہ یہ سیٹ اپ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس معاملے کو قانونی شکل مل چکی ہے۔ سارے صوبے کو پٹوار چلا رہا ہے۔ باہر سے آنے والی مالی امداد صوبائی خزانے میں جانے کی بجائے رفاعی کاموں کے نام پر این جی اوز کو تھما دی گئی۔
پارلیمنٹ فاٹا کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، یکطرفہ گاڑی چلانا خطرناک ہوگا: فضل الرحمن
May 12, 2017