قیامِ پاکستان سے پہلے انگریزوں نے سرکاری عہدوں پر مقامی بھرتیوں کے لئے پبلک سروس کے جو امتحان مقرر کیے جن کا پاس کرنا آسان نہ تھا۔اس کے بعد انگریز حکّام اِن کامیاب امیدواروں کی تربیت کرتے تا کہ وہ ان کے ذریعے عوام پر اپنی حکمرانی مضبوط رکھ سکیں۔وہ اِن کو مقامی سطح پر اتنے زیادہ اختیارات دے دیتے کہ وہ خود کو بادشاہ سمجھنے لگتے۔افسوس صد افسوس کہ یہ طریقہ کار اور رویے آزادی کے 71 سال بعد بھی جوں کے توں قائم ہیں۔ہمارے ہاں سی ایس ایس اور پی ایس ایس کے کامیاب اُمیدوار ا ب بھی کم و بیش اپنے آپ کو ملک کے اصل حاکم ہی خیال کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈران اور فوجی حکمران برسرِ اقتدار رہے لیکن انہوں نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ شاہانہ سوچ اب تک قائم ہے ۔اسی لئے ان عہدوں کے لئے نوکر ’شاہی‘ یا افسر ’ شاہی‘ کی اصطلاح زبان زدِ عام ہو گئی۔یہ ’شاہی‘ اس قدر منہ زور ہے کہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ ہی نہیں سمجھتی حالاں کہ ملک کا وزیرِ اعظم جو ملک کے سیاہ و سفید کا ذمہ دار ہے وہ بھی قانون کی زد میں آ کر سزا بھگت سکتا ہے لیکن یہ افسر شاہی تو قانون کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے۔
اس کی تازہ مثال کراچی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے بننے والے پانی، صحت اور صفائی کمیشن سے افسر شاہی کا ہر طرح سے عدم تعاون ہے۔سمندر سے قریب ترین واقع ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے افسران بار بار طلبی پر بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور اب کی دفعہ ایک لاء افسر کو بھیج کر فرض ادا کر دیا۔ یہ اتھارٹی ، ساحل اور سمندر کو آلودہ کرنے میں پیش پیش ہے۔ جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو یہاں کے کئی فیزوں phases میں لائن کا پانی سرے سے آتا ہی نہیں، پانی کے ٹینکر منگوائے جاتے ہیں،یہاں کے مکین بھی ڈی ایچ اے انتظامیہ سے لائینوں میں پانی نہ آنے کی شکایت کر کر کے تھک گئے لیکن … کیا اس میں خود ڈی ایچ اے بھی ملوث ہے؟۔
کاروائی کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے ساحلِ سمندر پر کچرے کے ڈھیراور گندگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا، اُنہوں نے ڈی ایچ اے سے سوال کیا : ’’ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کیا اسی لئے بنائی گئی ہے کہ سارا گند سمندر میں ڈال دیا جائے۔ڈی ایچ اے کے افسر کمیشن کے روبرو پیش ہی نہیں ہو تے، کیا وہ آسمان سے آئے ہیں؟‘‘ ۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے موقف اختیار کیا: ’’ متعلقہ افسر ہی اس کی وضاحت کر سکتا ہے‘‘۔ کیا دل خوش کُن جواب دیا گیا۔واہ وا ! اس معصومانہ جواب پر واری ہو جانے کو دل چاہتا ہے۔ اس پر کمیشن کے سربراہ نے پوچھا : ’’ لوگ وہاں تفریح کے لئے آتے ہیں اور آپ نے اس جگہ کو گندگی کا ڈھیر بنا دیاہے۔ 3 نالوں سے آنے والا سیوریج کا گندہ پانی، فلٹریشن /صاف کیے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔آپ لوگ ڈی ایچ اے کی پوری سیوریج لائن ساحل میں بہا رہے ہیں ۔ لوگ ساحل پر پکنک منانے آتے ہیں جب کہ یہ ساحل، ساحل ہی نہیں لگتا۔ اس کا بہت برا حال کر دیا ہے‘‘۔ ڈی ایچ اے کے افسرِ قانون نے اس سلسلے میں اپنی لا علمی ظاہرکی اور کہا : ’’مجھے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہاں کیا حال ہے‘‘۔ اس بات پر ان سے پوچھا گیا : ’’جب آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں تو پھر یہاں کیا لینے آئے ہیں؟ ‘‘۔
جس بات کے لئے ادارے یا محکمہ کو نوٹس دے کر بلوایا جاتا ہے جب اُسی کے وکیل یا لاء افسر یہ بھونڈی دلیل دیں کہ ہمیں تو اِس بات کا علم ہی نہیں، یہ تو آپ سے معلوم ہوا ‘‘۔ تواس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے اداروں اور محکموں کو عوامی نوعیت کے معاملوں سے رتی برابر دلچسپی نہیںـ ۔ان کا کام محض تاریخیں لینا اور کیس کو اتنا الجھانا کہ…کیا یہ افسر شاہی نہیں؟
دوسری طرف کراچی میں فراہمی آب میں کوتاہی کی شکایات پر کمیشن نے واٹر بورڈ پر برہمی کا اظہار کیا : ’’ آپ نے تو پورا نظام ہی تباہ کر دیا‘‘۔کمیشن نے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ کو تمام شکایات کرنے والوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا : ’’ آج ہی ان سب کے مسائل حل کر کے رپورٹ پیش کریں۔ واٹر بورڈ کے افسران ،باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ویب سائٹ پرٹینکر ملنے کا اعلان کر دیا لیکن کسی کو کوئی ٹینکر نہیں مل رہا۔فون نمبر تو دے دیے مگر کوئی فون ہی نہیں اُٹھاتا ، کام نہ ہونے پر ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ نے کہا: ’’ data /اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں ، جلد کام ہو جائے گا‘‘۔
کراچی کی افسر شاہی نے جب کوئی کام نہیں کرنا ہو تو یہ مخصوص جملے کہے جاتے ہیں: ’ دیکھ لیں گے، کر لیں گے، ہو جائے گا‘ ، لہٰذا یہ کام بھی ’ہو جائے گا‘۔
کراچی کے بڑے مسائل میں فراہمی آب سرِ فہرست ہے۔سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات اور واٹر بورڈ والوں کی سخت سرزنش کے بعداُمید ہو چلی ہے کہ شاید اب یہ دیرینہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ اور ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ کوئی اس افسر شاہی کو بھی لگام دے۔
سپریم کورٹ کا بنایا گیا واٹرکمیشن اور افسر شاہی
May 12, 2018