مجیدنظامی ہمہ جہت شخصیت، ا نکے ہر لفظ سے پاکستانیت جھلکتی تھی

لاہور (شہزادہ خالد سے) ڈاکٹر مجید نظامی، آبروئے صحافت کے 90 ویں یوم ولادت کے حوالے سے حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ مجید نظامی کے 90ویں یوم ولادت کے حوالے سے سہ ماہی رسالے ’’نوائے ادب انٹرنیشنل‘‘ نے خصوصی نمبر شائع کیا اور خصوصی نشست میں مقررین کو شیلڈز دیں۔ نشست کے آغاز میں مولانا فاروق اکرم نے قرآن پاک کی تلاوت کی حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں خصوصی نشست کی صدارت سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کی جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، دلاور چودھری چیف نیوز ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت اور جان کشمیری ایڈیٹر سہ ماہی ’’قرطاس‘‘ تھے۔ حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے پروگرام کی نقابت کے فرائض سرانجام دیئے۔ مجید نظامی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کہا کہ مجید نظامی سب کو اپنے سے بہتر سمجھتے، ان میں کبھی غرور کا پہلو نظر نہیں آیا۔ ہمارے نبی کریمؐ دوسروں کا بوجھ بھی خود اٹھا لیتے۔ نبی کریمؐ کے حکم کے مطابق انکی سنت کے مطابق مجیدنظامی دوسروں کا بوجھ خود اٹھا لیتے اور خود کو دوسرے سے کم تر سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق ایک دیندار آدمی تھے، ان میں تکبر نہیں تھا۔ ایک دفعہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے تو میں نے کہا کہ آپ صدر پاکستان ہیں تو ضیاء الحق صاحب نے کہا کہ اچھا مجھے تو پتہ نہیں تھا۔ فرید پراچہ نے کہا کہ نظامی برادران فرد نہیں ایک ادارہ تھے۔ انکے بعد بھی ان کے فرمودات آج پڑھائے جاتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ مجید نظامی ایک شمشیر برہنہ تھے۔ پاکستان کے خلاف بات کرنے والا طبقہ، سیکولر طبقہ مجید نظامی سے ڈرتے تھے۔ نظریہ پاکستان مجید نظامی کی پہچان تھا۔ نظریہ پاکستان کو مجید نظامی نے زندہ رکھا۔ بھارت کی آبی دہشت گردی کیخلاف مجید نظامی نے زندگی کی آخری سانس تک جہاد کیا۔ قائداعظم نے کہا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اس بات کو مجید نظامی نے زندہ رکھا۔ مجید نظامی نے قلم کا جہاد احسن طور پر کیا۔ نوائے وقت کے سی این ای دلاور چودھری نے شرکاء سے پرمغز خطاب کرتے ہوئے حاضرین کے لہو کو گرما دیا اور مجید نظامی کی باتیں کرکے ان کی یاد شرکاء کے دلوں میں اجاگر کردی۔ انہوں نے کہا کہ وہ 22 برس تک براہ راست مجید نظامی کی سربراہی میں نوائے وقت میں بطور انچارج کیا۔ دلاور چودھری نے کہا کہ کسی ڈکٹیٹر کو جرأت نہ ہوئی کہ مجید نظامی خلاف کوئی قدم اٹھا سکے۔ صرف یہ کرتے تھے کہ نوائے وقت کے اشتہار بند کردیئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مجید نظامی سے میٹنگ میں انہوں نے نوائے وقت کے ملازم کا کہا تو مجید نظامی نے کہا کہ آپ ملازم نہیں دوبارہ یہ نہیں کہنا ہم ایک ٹیم ہیں۔ ایک دفعہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا کہ ’’دو ٹکے کے صحافی‘‘ تو مجید نظامی نے کہا کہ آپ نے کس کو کہا کہ دو ٹکے کے صحافی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں کہا۔ ایک مرتبہ ضیاء الحق نے کہا کہ نظامی صاحب آپ بھی کوئی سوال کریں تو انہوں نے کہا کہ ’’ساڈی جان کدوں چھڈو گے‘‘۔ دلاور چودھری نے کہا کہ مجید نظامی بہت نرم مزاج تھے، وہ دشمن کے لئے فولاد تھے۔ اگر کسی کارکن سے غلطی ہو جاتی تو درگزر کرتے۔ ایک دفعہ انتخابات کا رزلٹ غلط چھپ گیا تو انہوں نے کارکن نوائے وقت سے نرم مزاجی سے بات کی۔ جان کشمیری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجید نظامی ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ جان کشمیری نے مجید نظامی کو مرد قلندر کہتے ہوئے نظم پڑھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
عرض وطن سے پیار جس کا پیام ہے
وہ برملا مجید نظامی کا نام ہے
حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے کہا کہ مجید نظامی کشمیر کی آزادی کے سب سے بڑ داعی تھے۔ وہ کلمہ حق کہنے میں کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے۔ ہر ڈکٹیٹر کے منہ پر اسے کھری کھری سنا دیتے۔ مجید نظامی ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتے اور پھر اس پر قائم رہتے۔ وہ قائداعظم جیسی خصوصیات کے مالک تھے۔ ابصار عبدالعلی نے کہا کہ مجید نظامی کو میڈیا سائنسٹسٹ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ نوائے وقت کی ایک پہچان ’’سرراہے‘‘ جو مجید نظامی خود لکھا کرتے تھے۔ مجید نظامی نوائے وقت کا اداریہ عام فہم زبان میں لکھتے جو آج سب فالو کررہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن