قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن کو خبردار کیا ہے کہ اگر ’’ہمارے‘‘ سپیکر پر حملے جاری رہے تو جنگ شروع ہو جائے گی۔ اس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا تو سپیکر اسد قیصر نے وزیر دفاع کی طرف سے ’’ہمارا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر وضاحت کی کہ وہ کسی ایک جماعت نہیں بلکہ پورے ایوان کے سپیکر ہیں۔ اس وضاحت کے بعد طرفین میں گرما گرمی کم اور ایوان کا ماحول قدرے بہتر ہو گیا۔
جمہوری اداروں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نوک جھونک ، گرما گرمی اور تلخ کلامی تک نوبت پہنچ جانا انوکھی بات نہیں۔ یہ باتیں پارلیمانی اداروں کی روایات کا حصہ اور خاصہ ہیں۔ تاہم معاملہ اُس وقت خراب ہوتا ہے جب جسمانی طاقت کا مظاہرہ ہونے لگتا ہے یا پھر جنگ کی دھمکیاں دی جانے لگتی ہیں۔ جنگ صرف دشمن سے ہوتی ہے۔ حکومتی حلقے ہم وطنوں اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ارکان کو جنگ کی دھمکیاں دینے لگیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہوش پر جوش نے غلبہ پا لیا ہے۔ یہ روش جمہوریت کے نام پرعوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والوں کو کسی طور بھی زیب نہیں دیتی۔ شائد وزیر دفاع بھول گئے کہ ہم وطنوں سے جنگ ، خانہ جنگی کہلاتی ہے۔ اس سے ہر محب وطن کوپناہ مانگنی چاہئے۔ یہ حقیقت بھی سرکاری ارکان کے ذہن نشین رہنی چاہئے کہ کوئی بھی حکومت ہو، ایوان میںاپوزیشن ارکان اُن کا گریبان پکڑتے رہتے ہیں، وگرنہ اُن پر فرینڈلی اپوزیشن کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر کی پارلیمنٹوں کی روایات یہی ہیں۔ اس لیے ہائوس کو خوشگوار بنانے میں اصل کردار سرکاری بنچوں کا ہوتا ہے۔ اگر حکومتی ارکان کی جانب سے ہی اشتعال بڑھایا جائے گا تو جواب میں اپوزیشن طوفان اُٹھانے میں کسر نہیں چھوڑے گی جس سے نقصان پورے ہائوس کا ہو گا۔ تحمل اور بردباری اختیار کر کے اپوزیشن کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سپیکر کو خود بھی رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جب وزیر دفاع نے اُن کے لیے ’’ہمارا‘‘ کا لفظ اختیار کیا تھا تو سپیکر کو فوراً ٹوک دینا چاہئے تھا۔ سپیکر درحقیقت پوری پارلیمنٹ کا کسٹوڈین ہوتا ہے ، کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں۔