اسلام آباد (عترت جعفری)آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان غیر رسمی رابطے تو جاری ہیں تاہم قرضہ پروگرام کے تحت بات چیت کے باضابطہ آغاز کا انحصار آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ کے اقدامات پر ہو گا،پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام اس وقت معطل ہے جبکہ جن دو ایشوز اس بات چیت کے باضابطہ طور پر آغاز کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ ریونیو اور سٹیٹ بینک کو مکمل خود محتاری دینا شامل ہیںعالمی مالیاتی فنڈ اگلے مالی سال کیلئے ٹیکس وصولی کا ہداف 5ہزار ارب روپے سے ذائد مقرر کرانا چاہتا ہے جبکہ ملک کے ٹیکس کولیکٹرز کو کہنا ہے کہآئندہ مالی سال میں اگر بہت کو شش بھی کی جائے تب بھی 48سے49سو ارب سے آگے جانا ممکن نہیں ہے ،ایف بی آر کو اس کے لئے بھیمجموعی طور پر24فی صد کی گورتھ لینا ہوگی جبکہ آئی ایم ایف ریونیو کی گروتھ کو 30فی سے ذائد رلھوانے کا متمنی ہے ،یہ ہدف کسی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ھکومت کو آئندہ مالی سال میں بھی کرونا کی وجہ سے450ارب روپے کا ریونیو کے نقصان کو خدشہ ہے ،آئی ایم ایف سٹیٹ بینک کو حکومت کے کنٹرول سے مکمل آزاد کرانے کی شرط رکھے ہوئے ہے جبکہ اس سلسلے میں ،مجوزہ قانون پراتفاق رائے موجود نہیں ،ذرائع کو کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی ریونیو کے بڑے ہدف کی شرط کو قبول کر لیا جائے تو اسے آئندہ بجٹ میں کئی سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی ضرورت ہو گی جو کرونا کے باعث دبائو کا شکار معیشت میں ممکن نہیں ہے ،ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر آعطم کو جلد بجٹ کو معاشی اہداف اور ٹیکسیشن کو مختلف پہلوئوں پر جلد ہے معاشی ٹیم بریفنگ دے گی ،جبکہ گذشتہ روز بھی معاشی ٹیم کے ارکان وزیر آعظم سے ملے تھے ، حکومت بجٹ خسارہ اور ڈیٹ سروسنگ کے معاملے پر بھی مشاورت کر رہی ہے،آئی ایم ایف نے سیکنڈ ریویو مکمل ہونے کے بعد تاحال اب تک قرض کی قسط جاری نہیں کی ہے ،ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر رسمی روبطوں سے اگر آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان بجٹ کے اہداف پر اتفاق رائے ہو گیا تو رسمی بات چیت شروع ہو جائے گی اور قسط جاری ہو گی ،بہ صورت دیگر پروگرام کو معطل ہی رکھا جائے گا۔