میرے ایف ایس سی کے دوست، آج کل بیرون ملک ملازمت کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر مارچ کے دوسرے ہفتے چھٹیوں پر ملک آئے۔ چند دنوں بعد کرونا وائرس پر ان سے بات چیت ہوئی۔ انتہائی پر اعتماد انداز میں فرمانے لگے کہ ملک میں کرونا کے حوالے سے بہترین پالیسیز تشکیل دی گئی ہیں اور اگر احتیاط کو مدِّنظر رکھا گیا تو انشاء اللہ ہم اس وبائی مرض پر جلد قابو پا لیں گے۔ میں نے کچھ تحفظات کیساتھ وفاقی حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا تو میرے دوست فرمانے لگے کہ ہیلتھ ایڈوائزر ان کے عزیز اور دوست ہیں چنانچہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری معلومات درست ہیں۔ دل میں سوچا کہ اس بحث میں دوستی خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ شروعات میں مریضوں کی تعداد تھوڑی اور اموات کی شرح خاصی کم تھی۔ جوں جوں دن گزرتے گئے یہ شرح بڑھتی گئی۔ اس درمیان لاک ڈائون کا اعلان بھی ہو گیا۔ سندھ والے پہل کر چکے تھے۔ جب کہ ہمارے وزیراعظم کو ’’غریبوں‘‘ کی فکر تھی۔ پھر لاک ڈائون میں توسیع کا اعلان بھی ہو گیا۔ وزیراعظم کو گڈز ٹرانسپورٹ کی فکر لاحق ہوئی۔ احساس پروگرام شروع ہوا۔ غریبوں میں پیسے تقسیم ہوئے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کرونا کنٹرول ہو سکا اور نہ ہی غربت، حالات ہیں کہ اس سے بھی زیادہ دگرگوں چکے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈائون کھلنے والا ہے۔ مختلف مرحلوں میں زندگی معمول پر آ جائے گی اور رمضان کے تقریباً آخری دو ہفتے لوگ کھل کر خریداری اور عید بھی روایتی طور پر منا سکیں گے۔ تین روز قبل کے اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں کہ کرونا کے حالات خراب سے خراب تر ہونے والے ہیں اور معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔ کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو پھر پہلے ہی اتنے غلط فیصلے کیوں کر کیے۔ پہلے کرونا کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ۔ اگر کسی گلی، محلے یا قصبہ میں کرونا کا کوئی مریض نکل ہی آئے تو خدا گواہ ہے اس کو پولیس اور دیگر ادارے اس طرح پکڑ کر لے جاتے ہیں جیسے وہ کرونا کا مریض نہیں بلکہ القاعدہ کا دہشت گرد ہے۔ اس کے دیگر اہل خانہ سے اداروں اور گلی محلے والوں کا سلوک ایسا ہوتا جیسے یہ ’’شودر‘‘ ہوں۔ اب مریض جب قرنطینہ مرکز پہنچتا ہے تو اسے معلوم چلتا ہے کہ جیسے کسی چھوٹی ’’اڈیالہ جیل‘‘ میں آ چکا ہے۔ علاج چونکہ دستیاب نہیں۔ محض تنہائی ہی تنہائی ہے کھانا ایسے جیسے کسی لنگر میں پچاس آدمیوں کا تیار ہو اور وہاں دو سو بندے آ جائیں۔ اول تو انتظامیہ کسی مخیر شخص کی آمد کی منتظر رہتی ہے۔ مایوس ہو کر پکڑ دکڑ کر کام چلتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اہم لوگوں کے ہر شہر میں قرنطینہ سنٹربن چکے ہیں۔ اب اگلا ڈرامہ ان کی ’’اصلاحات‘‘ کے نام پر ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر سپرے کے نام پر پہلے وہاں پینٹ ہوتا ہے۔ پھر مکھیوں ، مچھروں سے بچنے کے لیے تمام ٹوٹے کھڑکیاں، دروازے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح معیاری کھانوں کے حوالے سے کچن اور دیگر ضروری کمروں کی مکمل ریپیئرنگ ہو جاتی ہے۔ یہ تصور کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ قرنطینہ مراکز سے مریضوں کا غائب ہونا ہے۔ یہاں انتظامیہ اور ڈیوٹی پولیس اہلکاروں کی مٹھی گرم کر کے یہ مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور اگر مجبوراً کسی وجہ سے مریضوں کی گنتی درکار ہو تو باہر سے کسی بھکاری کو پکڑ کر نفری پوری کی جاتی ہے دوسری طرف لائے گئے مریض کی گلی یا محلہ سیل کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہاں پر عمومی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے اہلکاروں کی مٹھی گرم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چھوٹے موٹے وزیروں کو تو رکھیں ایک طرف ہمارے بزدار صاحب جب ضلع جہلم اور راولپنڈی کے دورے پر آئے تو ایک ایک غیر اہمیت کے حامل قرنطینہ مرکز لائے گئے۔ تصاویر کیمروں نے محفوظ کیں۔ پھر صرف 25/30 گاڑیوں کے مختصر سے قافلے پر خدا حافظ اس وقت ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اہلیت اتنی ہے کہ انہیں12 ہزار روپے تقسیم کرنے کے لیے لوگوں کی ضرورت تھی۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں ان سے مستحق افراد کی لسٹیں بھی نہ بن پا رہی تھیں۔ چنانچہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لسٹیں نکلوائی گئیں۔ جن میں معمولی رد و بدل کر کے کام چلایا گیا۔ اسی طرح بیت المال سے بھی مدد لی گئی۔ چنانچہ پورے اعتماد سے کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ دس بارہ سال پہلے مستحق قرار پائے تھے یہ شرف بار بار انہیں ہی حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اپنے اپنے ’’غربا‘‘ کے لیے اِدھر اُدھر ’’ٹکریں‘‘ مار رہے ہیں۔ کرونا پر قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بھی بلایا گیا ہے۔ گمان ہے کہ جس دن میرا کالم چھپے گا اسی دن یہ اجلاس ہوگا۔ اس اجلاس کے لیے کورم کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے پھر سمجھ نہیں آ رہا کہ اندرون ملک خصوصی فلائٹس کس مقد کے لیے چلائی جائیں گی اور دوسرا کوئی ان سے پوچھے کہ ان 342 ممبروں کی گذشتہ 18 ماہ میں کیا کارکردگی رہی ہے جو یہ کرونا بارے ’’تجاویز‘‘ پیش کریں گے۔ بن سنور کر آنے والی خواتین ممبران کی مایوس کن کارکردگی اب بھلا کیا رنگ لائے گی۔یہ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ کچھ ہی نہیں ہونے کو۔ اللہ معاف کرے ابھی کرونا نے نہ جانے کتنا نقصان پہنچانا ہے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا! ملک میں لاک ڈائون کے باوجود اس وقت بھی شام پانچ بجے تک کسی بازار یا مارکیٹ میں گاڑی پارک کرنے کی جگہ ملتی ہے نہ پیدل چلنے کی۔ نہ جانے یہ کس طرح کا لاک ڈائون ہے۔
اب کچھ باتیں ہوجائیں سیاسی! پی ٹی آئی کے اندر شدید گروپ بندی ہے جس کی دم پر پائوں آئے، بھلے وہ جہانگیر ترین ہوں یا خسرو بختیار، فردوس عاشق اعوان ہوں یا کوئی اور ہر کسی کے پاس راز ہی راز ہیں۔ ارباب شہزاد کو ایک دن نکالتے تو دوسرے دن اُن کی واپسی ہو جاتی ہے۔ ہماری دانست کے مطابق عاصم سلیم باجوہ کے بعد ایک دو اور سابق فوجی شخصیات کچھ ذمہ داریاں حاصل کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ گو حکومتی اور اپوزیشن کے ذرائع نیب یا اٹھارہویں ترمیم پر ممکنہ قانون سازی پر مذاکرات بارے سختی سے تردید کر رہے ہیں جبکہ اندرون خانہ حالات کچھ اور ہی ہیں۔ وہ سب چاہتے ہیں کہ نیب تقریباً ختم کر دیں جواب میں اٹھارہویں ترمیم مکمل کر دیں حتیٰ کہ اس میں 58-2B بھی واپس لے آئیں۔حالیہ شہباز شریف کی نیب پیشی کے بعد چھوٹے میاں صاحب یہاں تک کہتے سنے گئے کہ مجھے ملک واپس نہیں آنا چاہئیے تھا مجھے جان بوجھ کر بلوایا گیا ہے اور اب میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ یہی حال ’’ن‘‘ کے کچھ دیگر لوگوں کا ہے۔ میاں جاوید لطیف نے تو اب کھل کر چوہدری نثار پر تنقید شروع کر دی ہے۔ جب چوہدری نثار وزیر تھے اس وقت جاوید لطیف جیسے بندے ان کے دفتر کے باہر پر بھی نہیں مار سکتے تھے یہ تو بھلا ہو مریم صفدر کا کہ جن کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پل پرزے نکل آئے ہیں۔ ہمارے ذاتی خیال کے مطابق ’’اوکھا سوکھا‘‘ بجٹ پیش ہو گا۔ منظور ہو گا اور پھر عمران خان شاید ’’آزاد‘‘ ہو جائیں اور کسی نئے طرز کا سسٹم لایا جائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ اب ایسی جمہوریت نہیں چلے گی۔ میں ایک بات تسلسل سے لکھ رہا ہوں کہ کچھ بھی ہو احتساب نہیں رُکے گا۔ رب کومنظور ہوا تو لوٹی ہوئی دولت ضرور واپس آئے گی اور ایک خبر بھی دیتا چلوں کہ اب کوئی بھی بچ نہ سکے گا۔ بھلے وہ کتنا ہی پھنے خان کیوں نہ ہو۔