کرونا اور معیشت کا ذکر کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہوئے کچھ ذکر عام آدمی کا بھی ہو جائے .اردو شاعری میں عشق ،زلف دراز،بے وفائی اور نہ جانے کس کس موضوع پر کتابوں کے انبار مل جاتے ہیں مگر جب عام آدمی کے شب و روز اور غم روز گار،محرومی،حسرتوں اور خوابوں اور عسرتوں کا احوال شاعری میں تلاش کیا جائے تو بہت کم ایسے شعراء ملیں گے جنہوں نے عام آدمی کو اپنا موضوع بنایا ،البتہ مزاحیہ شاعری میں جا بجا عام آدمی نظر آ جاتا ہے ،جب خاک نشیں سکول میں پڑھ رہا تھا تو اس وقت نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم کورس میں تھی جس کا عنوان تھا ’’آدمی نامہ‘‘،بہت شہکار ہے اس کا ایک شعر جب پڑھتا تو حقیقت بھی نظر آتی اور ہنسی بھی آتی ،اس میں انہوںنے کہا تھا کہ آدمی ہی مسجد بناتے ہیں ،امام بنتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں اور ایسے آدمی بھی ہیں جو جوتیاں چراتے ہیں ،سیاسی شعرا نے عام آدمی کی بات کی ہے ،لیکن ان کی ذیادہ تر چوٹ نظام پر رہی ،کرونا بیماری اور گرتی معیشت میں عام آدمی کا کیا حال ہے اور وہ کیا سوچ رہا ہے دل چاہا تھا کہ اس کو اشعار میں بیان کیا جائے جس طرح کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر الفاظ سے کہیں ذیادہ اثر رکھتی ہے اسی طرح ایک شعر میں خیال کا پورا دفتر بند ہو جاتا ہے ،اور کام بھی نہیں بگڑتا، مگرسچ پر مبنی الفاظ تو خود لکھنے والے ہی کو کھا جاتے ہیں ،خاک نشین تو شاعر نہیں اس لئے بات کہنے کے لئے الفاظ ہی کا سہارا لینا پرتا ہے،شوگر کو ٹیڈ الفاظ میں گھما پھیرا کر بات کرنا پڑتی ہے کیونکہ گالم گلوچ بریگیڈ تو سبھی کے پاس ہیں،خاص طور پر ان کے پاس ہیں جنہوں نے سیاست میں اس کی روائت ڈالی اوردوسروں نے پورا انصاف کرتے ہوئے اسے آرٹ کا درجہ دے دیا ، بچتے بچاتے عام آدمی کی حالت زار بیان کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے زندہ درگور کیا جا رہا ہے ،اس کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں ہے ،اس کے پاس نہ بجلی گیس کی پوری سہولت موجود ہے ،نہ صاف پانی،تعلیم دگر گوں اور ہسپتالوں کے دروازے بند،بیان بازی پر نہ جائیں کسی کو بھی عام آدمی کو کچھ لحاظ نہیں،ہر کوئی عام آدمی کاکہہ کر اپنے اپنے مفاد کی ٹوکری سر پر اٹھائے ہوئے ہے ، عام آدمی کو بھی سیاست کی ان بھول بھلیوں میں کوئی لچسپی نہیں ،اس کو نہیں پتہ کہ این ایف سی ایوارڈ کیا ہوتا ہے،یک ایوانی یا دو ایوانی مقننہ کے کیا فوائد ہیں یا پارلیمانی نظام اچھا ہوتا ہے یا صدارتی نظام ،اس کی دلچسپی ہو اس بات سے ہے کہ اس کو دو وقت کی روٹی کیسے ملے گی ،اس کا اور اس کے بچوں کے بیمار پڑنے پر علا ج کہاں ہو گا ،فکر معاش کے گورکھ دھندے اس کو کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے،مگر اس کے باوجود حیرت ہوتی ہے کہ اس کو جب بھی موقع ملا اس نے ہمیشہ حقیقی تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر اپنے کام میںمگن ہو گیا اس کو شائد یقین تھا کہ وہ اپنے حصے کا کام کر چکا ہے اور اب مینڈیٹ لینے والوں کی باری ہے،اب اس طرح کے معصومانہ طر ز عمل کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہی ہر بار نکلا ہے ،ہر 10سال کے بعد پتہ چلتا رہا کہ وہ پہلے سے بھی ذیادہ غریب ہو چکا ہے ،اس بار بھی حقائق یہی ہیں ،ملکی قرضے نئی حدوں کو چھو رہے ہیں ،فی کس قرض بڑھ چکا ہے ، گروتھ منفی ہو چکی ہے ،ریونیو کا حال برا ہے ،دنیا نے گرانٹس کی شکل میں مدد نہ کی تو بجٹ کا خسارہ بھی راکٹ کی طرح آسمان کی جانب جائے گا ،اس وقت قیادت کا اصل امتحان ہے ،بجٹ میں جو دو ہفتوں بعد آنے والا ہے ،اور اس سے قبل نیشنل اکائونٹس کمیٹی اوراقتصادی سروے میں سب آشکار ہو جائے گا،اب ایک راستہ ہے کہ جو بھی ریلیف کی صورت بنے اس کو پرو گروتھ اقدامات کے لئے استعما ل کیا جائے،نقد امداد جیسے اقدامات وقتی ہوتے ہیں ان کا کبھی دیرپا اثر نہیں ہوا ہے ،غریب کو صرف اور صرف معیشت کے چلنے سے ہی فائدہ ہو سکتا ہے ،عام آدمی کی سوچ کو مدنظر رکھ کر ہی اس کو فائدہ دیا جاسکتا ہے ،جن چیزوںپر اب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ برامدی سیکٹر اور ملک کی آمدن ہے،اس سال3908ارب روپے کے ریونیو کی توقع کی گئی ہے ،جبکہ آئندہ سال کم وبیش5ہزار ارب روپے کا ہدف ہو گا ،یہ24فی صد کی گروتھ کا متقاضی ہو گا ،عمومی طور پر ایف بی آر کی ریونیو کی سالانہ گروتھ 20فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ،یہ بھی ایک چیلنج ہی ہو گا،تاہم اب کی بار ہدف کو نہ پا سکنے کا آپشن بہت ہی مضر ہو گا ،اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام معاشی سیکٹرز کے ساتھ مشاورت سے پالیسیاں بنائی جائیں،اس مشاورت کو ڈاکو مینٹ کیا جائے ،ایف پی سی سی آئی اور چیمبرز،زرعی تنظیموں کو بٹھا کر ان جو بھی پالیسی بنائی جائے اس پر عمل کا ان کو بھی پابند کیا جائے ،عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کمرے میں جو طے کیا جاتا ہے زرا سا دبائو آنے پر اس سے پہلو تہی کرنے کے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں ،سرکار ہر جگہ غلط نہیں ہوتی ایسا بار بار ہوا کہ سہولت استعمال کر لی مگر جب ذمہ داری ادا کرنے کو وقت آیا تو فرار کا راستہ اختیار کیا گیا ،اس بار بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے ،دو سال گذر چکے ہیں اب جو چیلنجز ہیں ان کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی ،غیر معمولی حالات اور غیر معمولی دانش ہی سے ان سے نمٹنا پڑے گا ،اب ہار مونیم پر پرانی دھنیں الاپنے سے دل بہلانے والاوقت گذر چکا ہے ،کچھ نیا کر کر دیکھانے کا فیصلہ کن لمحہ ہے،ہارمو کا ذکر آیا تو کوئی بتا سکتا ہے کہ ریڈیو میں ماضی بعید میں ہارمونیم کا داخلہ کس نے بین کیا تھا؟
’’آدمی نامہ اور ہارمونیم‘‘
May 12, 2020