ایک بات تو واضح ہے کہ کورونا وائرس اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہماری عادتیں بدل نہیں جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت جو بھی ہو جائے ہمیں اس کے ساتھ ہی اپنے معمولات زندگی چلانا پڑیں گے۔کورونا وائرس نے دنیا کی سیاست، معیشت اور معاشرت تہہ و بالا کر دی ہے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ وبا کے بعد عالمی افق پر مستقبل کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ فی الحال چین اور امریکہ تیزی سے ایک نئی سرد جنگ میں ملوث ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ امریکہ، چین پر جان بوجھ کر وبا پھیلانے کا الزام لگا کر چین کے خلاف ایک اتحاد بنا رہا ہے تاکہ چین پر اتنا بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے کہ وہ اس صدی میں تو نہ اٹھ پائے۔سوال یہ ہے کہ کووڈ 19 وائرس کیا واقعی ووہان کی حیاتیاتی لیب میں تیار کیا گیا تھا؟ ڈبلیو ایچ او صدر ٹرمپ کے الزامات کی تردید کر رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وائرس کا منبع کہیں اور ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر جینیات ڈاکٹرپیٹر فورسٹر کا کہنا ہے کہ چین میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 24 دسمبر 2019ء کو سامنے آیا تھا لیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وائرس کا منبع وہیں ہے، کیونکہ چمگادڑ سے انسان میںوائرس منتقل ہونے کا واقعہ 13 ستمبر سے 7دسمبر 2019ء درمیانی عرصے میں ہوا ہے۔ ووہان میں وائرس کی ٹائپA اور B ملے ہیں جبکہ ٹائپ C سنگاپور سے ملا ہے۔ ہر ٹائپ کے وائرس کے اثرات مختلف ہیں جبکہ ہر علاقے اور نسل کے لوگوں پر بھی اس کے مختلف اثرات سامنے آئے ہیں۔ تاہم اس جینیاتی ٹری کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ چمگادڑ سے ٹائپ A کے وائرس میں یہ کب اور کہاں تبدیل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ سے بھی یہ دبی دبی خبریں آ رہی ہیں کہ فرانس میں 27 دسمبر کو کورونا وائرس کا مریض سامنے آیا تھا جو کبھی چین نہیں گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں کووڈ19 سے دو افراد ہلاک ہوئے تھے جنہیں عام فلو کا مریض سمجھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست ورجینیا کے ایک چھوٹے سے شہر کے میئر نے بھی کہا ہے کہ وہ نومبر میں شدید بیمار ہوا تھا جسے ڈاکٹروں نے وائرل انفیکشن قرار دیا تھا۔ اس وقت اس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا لیکن اب اینٹی باڈیز ٹیسٹ کروایا ہے جو پازیٹو آیا ہے۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد وقت کا سب سے اہم سوال یہی بن گیا ہے کہ کیا یہ وائرس واقعی میں چین میں چمگادڑ کا سوپ پینے سے انسان میں منتقل ہوا ہے؟ کیونکہ چین اور مشرق بعید میں لوگ سیکڑوں اور ہزاروں برس سے اس قسم کی چیزیں کھا رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کبھی ایسی کوئی وبا نہیں پھیلی۔ اس کا مطلب یہ ہے کسی نے وائرس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے ورنہ کسی حیوانی وائرس کے انسان میں منتقل ہونے کے قدرتی عمل میں سیکڑوں برس لگ جاتے ہیں۔ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات مان لی جائے کہ یہ وائرس لیب سے نکلا ہے تو بڑا سوال یہ ہے کہ یہ وائرس کون سی لیب سے نکلا ہے؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورۂ بھارت کے دوران بھارت کے ایشیا پیسیفک ریجن میں کردار کی بات کرکے جا چکے ہیں تاہم بھارت کی ساری توجہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے اور بلوچستان میں دہشت گردی کروانے اور سی پیک منصوبہ ناکام بنانے پر ہے ۔ انہیںامید ہے کہ چین کے خلاف چند بحری جہاز بھیجنے کے عوض امریکہ، بھارت کے پاکستان مخالف منصوبوں کی حمایت کرے گا۔ اس وقت بھارت کے میڈیا پر جس طرح بلوچستان میں جس طرح کھلم کھلا دہشت گردی کروانے کی باتیں کی جا رہی ہیں وہ کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا نتیجہ ہے ۔ ان دنوں بھارتی مڈل کلاس ایک بار پھر ٹی وی پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کا حال دیکھ کر خوش ہو رہی ہے کہ جیسے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر ترنگا لہرا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میںپاکستانی فوج پر دہشت گرد حملے کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے فوجی افسران کی ہلاکت کا بدلہ قرار دینے والے پہلے ہی کہہ چکے تھے بلوچستان میں آرمی پر حملے ہوں گے۔ پاکستان کو بھارتی میڈیا سے مسلم مخالف پروپیگنڈا اور پاکستان میں دہشتگردی کروانے کی باتوں کا معاملہ ایف اے ٹی ایف میں ضرور اٹھانا چاہیئے۔ بھارتی میڈیا میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا اور جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں طویل کرفیو کے باوجود کشمیری حریت پسندوں کی تحریک ختم نہیں کی جا سکی ہے۔ مودی جی کی 56 انچ کے سینے والی سرکار نے بھارتی معیشت اور عوام کا جو حال کیا ہے اس کے پیش نظر انہیںعوام کی توجہ ہٹانے اور بھارتی قوم پرستی بڑھانے کے لیے پاکستان سے چھوٹی موٹی جنگ کی اشد ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی سرجیکل ، فرضیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ مودی سرکار کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچا پائے گا؟ بھارتی مڈل کلاس ان دنوں گھر میں بیٹھ کر بور ہو رہی ہے، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر کب تک ہندو مسلم کی بحث سنیں اور پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی باتیں کریں، شراب ملنا بھی مشکل ہو گئی ہے۔دوسری جانب 22 کروڑ غریب، قلاش اور بھوکے پیاسے مزدورشہروں سے واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔جو مزدور سیکڑوں میل پیدل چلنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ ٹرین اور بس چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن ہزاروں مجبور مرد، عورتیں اور بچے شہروں سے گائوں کی طرف خاموشی سے گریٹ مارچ شروع کر چکے ہیں ، سڑک پر پیدل چلنے والوں کوپولیس کا لاٹھیاں مارتی ہے جس سے بچنے کے لیے وہ ریلوے لائن پر چلنے لگے ہیں۔ بہت سے مزدور اس گریٹ مارچ کے ابتدائی دنوں میں ہی جان کی بازی ہار گئے تھے، کچھ کو ہائی وے پر گاڑیاں ٹکر مار گئیں۔کچھ بھوک اورپیاس سے نڈھال ہو کر مارے گئے اور حال ہی میں16 مزدور جب تھک کر ریلوے لائن پر ہی سو گئے تھے تو مال گاڑی کے نیچے آکر مارے گئے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کروڑوں غریب مزدوروں کے شہروں سے نکل جانے کے بھارت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہزاروںبرس پرانی پیشگوئیاں تو یہی کہتی ہیں کہ انہی دنوں میں بغاوتیں ہوں گی۔ کورونا وائرس کے دنوں میں خلیجی ریاستوں میںٹوئیٹر پر جس طرح کے مسلم مخالف ٹوئیٹس کیے گئے تھے اسے محض چند لوگوں کے دماغ کا فتورنہیںکہا جا سکتا بلکہ یہ بھارتی انتہا پسندوں کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔ یو ٹیوب پربھارتی انتہا پسندوں ایسے بیانات اور تقاریر موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابری مسجد کی طرح مسمار کرکے مندر بنانے والی مساجد کی فہرست میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے جسے وہ مکیشور مہا دیو کا مندر یا شیو مندر قرار دیتے ہوئے یہ گمراہ کن دعویٰ کرتے ہیں کہ کعبہ کے اندر شیو لِنگ رکھا ہوا جس کے گردقدیم ہندو روایات کے تحت طواف اور سجدہ کیا جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خانہ کعبہ کو دور جاہلیت کی طرح دوبارہ بت پرستی کا مرکز بنایا جائے۔کورونا وائرس کی وجہ سے تیل بے وقعت ہو گیا ہے اور عرب حکمرانوں نے بہت سے غیر ضروری پروجیکٹس بند کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں موجود لاکھوں بھارتی باشندوں کو واپس جانا پڑ رہا ہے۔ اس واپسی سے بہت سے لوگوں کو روزگار کی پریشانی تو ضرور ہوگی لیکن بھارتی انتہا پسندوںکے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے منصوبوں کو بھی ضرور دھچکا لگے گا۔ مستقبل میں سعودی حکومت کو بھی ویزہ دینے سے پہلے یہ ضرور دیکھنا چاہیئے کہ ویزہ لینے والا شخص کاکسی انتہا پسند تنظیم سے تعلق تو نہیں ہے۔ بھارتی انتہا پسند مسلم مخالف تقاریرمیں مسلمانوں کے لیے نئے نبی اور نئے قرآن کی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بھارت پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانا چاہتا ہے۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کارگلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنے ہمدردوں کی موجودگی کا دعویٰ بھی کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ جنگ کی صورت میں وہ بھارت کا ساتھ دیں گے۔ان باتوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت میں مسلم مخالف مہم کا دائرہ کار صرف بھارتی مسلمانوں یا پاکستان دشمنی کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندو راشٹر کی سرحدوں سے باہر مذہبی اور نظریاتی ترویج بھی ہے ۔ جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے جسے وہ لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ذریعے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ گھمنڈ ہے کہ وہ 1.35 ارب لوگوں کی مارکیٹ ہیں اور ہر کوئی ان سے کاروبار کرنے پر مجبور ہے، لیکن اگر یہ وبا طویل ہو گئی تو دنیا کی یہ مجبوری بھی ختم ہو جائے گی۔ کورونا وائرس نے کنزیومرازم کا بھرکس نکال دیا ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ ضروریات زندگی محدود اور خواہشات لا محدود ہوتی ہیں، جن پر قابو پا کر اتنی ہی سادہ زندگی گزاری جا سکتی ہے جتنی آج سے 40-45 سال پہلے گزاری جاتی تھی۔ اگر دنیا بھر سادگی کی یہ لہر چل پڑی تو صنعتی پیداوارمیں بھی کمی آجائے گی۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان میں لاک ڈائون کم تو ہو جائیں گے لیکن اتنی جلدی ختم نہیں ہوں گے۔یا شاید اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہم میں صفائی ستھرائی اور ڈسپلن کی عادت پختہ نہیں ہو جائے گی ۔اس وقت کا بڑا سوال یہ ہے کہ وبا کی وجہ سے پاکستانیوں کے طور طریقے بھی بدلیں گے یا پرانی روشیںاس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے لوگوں کو بیمار اور موت کا شکار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ لیں گے۔