اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کرونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں، حکومت لاک ڈائون کے لئے مجبور ہوئی تو غریب تباہ ہو جائے گا، ملک میں قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہوں، عوام ساتھ دیں۔ تین دہائیوں تک ملک کو لوٹنے والی سیاسی اشرافیہ اور مافیا قانون کی بالادستی کا مخالف ہے، قبضہ مافیا سے 22ہزار ایکڑ اراضی واگزار کروائی جس کی مالیت 27ارب روپے ہے۔ لاہور میں قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی ہوئی تو مریم نواز مافیا کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ شہباز شریف اپنی چوری بچانے کے لئے ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ نواز شریف سپریم کورٹ پر حملہ کر چکے ہیں، ہم نے عدالتوں کو آزاد کیا۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی، حکومت رہے یا چلی جائے، کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ جب تک زندہ ہوں شریف خاندان سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائوں گا۔ منگل کو عوام کی ٹیلی فون کالز کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تمام شہری گھر سے نکلتے ہوئے ماسک لازمی استعمال کریں، کرونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جائے، عید کی چھٹیوں میں ماسک استعمال کریں، لاک ڈائون کا سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہوتا ہے، خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں صورتحال بہتر ہے، جتنی احتیاط کریں گے اتنا ہی جلدی وبا پر قابو پا لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب ملک کے سربراہ قومی خزانہ لوٹنا شروع کر دیں تو ملک تباہ ہو جاتا ہے، قانون کا مطلب کمزور کو طاقتور سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ڈنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو پیسے دیے تا کہ وہ چیف جسٹس کو باہر نکال سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ قانون کی بالادستی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک چیف جسٹس کو باہر نکالا اور مجھے فخر ہے کہ پرویز مشرف کے اقدام کیخلاف جدوجہد کی، مجھے پابند سلاسل کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو لیڈر اپنے بڑے بڑے محلات میں رہنے کے لئے بیرون ملک فرار ہوگئے تھے۔ ہم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اس لئے نیب اور عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سیاسی اشرافیہ نے 30 سال ملک کو لوٹا ہے، یہ سارا مافیا ہے جو قانون کی بالا دستی نہیں چاہتا، چینی مافیا بھی نہیں چاہے گا کہ ادارے فعال ہوں۔ عوام کو میرے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کمشیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، بھارت سے کشمیر پر کوئی بات چیت نہیں ہو رہی، چین کی اقتصادی ترقی سے خوفزدہ مغربی ممالک بھارت کی حمایت کرتے ہیں، جب تک بھارت غیر قانونی قبضے والے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ جرمنی سے ایک شہری ذوالفقار احمد نے بتایا کہ جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے کے ایک اہلکار نے ذاتی عداوت کی بنا پر ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے پریشان کر رکھا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیرخارجہ کو ہدایت کی کہ ایک پورٹل بنائیں اور آن لائن شکایات سنیں، اگر اس پورٹل پر شکایت کے باوجود کارروائی نہیں ہوتی تو پھر اس کو وزیراعظم آفس ڈیل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتکاروں نے بہت اچھے کام بھی کئے ہیں، کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر میں اجاگر کیا ہے، انتظامی معاملات میں کچھ مسائل ہیں جو جلد حل کر لئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پینے کے پانی کا مسئلہ تمام بڑے شہروں میں آنے والا ہے، کراچی میں یہ مسئلہ پیدا ہو چکا ہے، لاہور اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ شہروں کے پھیلائو کی وجہ سے زرعی زمین بھی کم ہو رہی ہے جس سے فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہروں کے ماسٹر پلان بنا رہے ہیں اور بلندوبالا عمارتوں کی اجازت دی ہے، لاہور میں نیا شہر بسا رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار لوگوں کو گھر خریدنے کے لئے قرض دیئے جا رہے ہیں۔ حکومت گھروں کے لئے قرض دینے کے لئے ایک نیا بنک بنا رہی ہے۔ بھارت میں لاک ڈائون کے نتیجے میں 22کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گئے ہیں اسی لئے مودی لاک ڈائون سے ڈر رہا ہے، بار بار عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ماسک کا استعمال لازمی کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر ویکسین کی تیاری کے حوالے سے قوم کو جلد خوشخبری دیں گے۔ وفاقی کابینہ کی کارکردگی کے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ میری ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہیں، ٹیم میں ہر کوئی سپر سٹار نہیں ہوتا، کوئی اچھا کام کرتا ہے، کوئی برا کرتا ہے، کوئی بہت ہی خراب کرتا ہے، جس کی کارکردگی اچھی نہیں ہوتی اس کو نکال دیا جاتا ہے۔ ایک شہری محمد آصف نے بتایا کہ پولیس کے ایک ڈی ایس پی نے میری دکان پر قبضہ کر رکھا ہے اس پر وزیراعظم نے کہا کہ قبضہ مافیا اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے، بڑے بڑے قبضہ گروپوں پر ہاتھ ڈالا ہے، ان میں سے کئی سابق وزیر تھے، ارکان پارلیمنٹ تھے اور ان لوگوں سے اربوں روپے کی سرکاری اراضی واگزار کروائی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سول پروسیجر کوڈ میں اصلاحات کی جا رہی ہیں، کے پی کے اور اسلام آباد میں یہ قانون نافذ ہو چکا ہے جس کے تحت دیوانی مقدمات کو ایک سال کے اندر نمٹانا ضروری ہے جب کہ پنجاب میں یہ ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی باڑ نہ ہونے کی وجہ سے سمگلنگ ہو رہی تھی ہم اس حوالے سے میکنزم بنا رہے ہیں۔ ایران سے صرف پٹرول کی سمگلنگ کے نتیجے میں حکومت کو ایک سو اسی ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، فی الحال بلوچستان سے باہر اس پٹرول کی سمگلنگ روک دی ہے جلد ہی بلوچستان میں بھی یہ بند کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی قیمت اور آٹے کی سپلائی کے معاملات صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں، اٹھارھویں ترمیم کے بعد وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا لیکن سندھ اور کراچی کے لئے حکومت پیکج متعارف کروا رہی ہے۔ ایک چھوٹا چور ہوتا ہے لیکن ایک بڑا ڈاکو ہوتا ہے، چھوٹے چور سے عوام تنگ ضرور ہوتے ہیں لیکن سسٹم پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لیکن جب ملک کا سربراہ چوری کرتا ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے، شہباز شریف سات سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس سے باہر بھاگ رہا ہے، ان کا پیسہ باہر پڑا ہوا ہے، یہ ٹپ آف دی آئس ہے، ان کے بیٹے اربوں روپے کے گھروں میں رہ رہے ہیں، وہ پیسہ پاکستان سے چوری کر کے لے کر گئے ہوئے ہیں، اگر پاکستان کی جیلوں میں موجود تمام چوروں کی چوری جمع کر لیں تو پھر بھی شریف فیملی کی چوری بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے زرداری کو این ار او دیا تو ملک کے قرضے کئی گنا بڑھ گئے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے ووٹ نہ ملنے کا ڈر نہیں، چاہے حکومت چلی جائے پھر بھی کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہانگیر ترین کو واضح کیا ہے کہ کسی سے ناانصافی نہیں کروں گا، یہ میرا وعدہ ہے کہ جنہوں نے چینی مہنگی کر کے عوام کو نقصان کو پہنچایا ہے ان کو معافی نہیں ملے گی چاہے میری حکومت چلی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سو ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکل کر شوگر ملز مالکان کے پاس چلے گئے۔ شوگرملز مالکان نے دس ارب روپے ٹیکس دیا اور اس پر پندرہ ارب روپے سبسڈی حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور جب اکٹھے ہو جاتے ہیں تو مہنگائی کر دیتے ہیں۔ مہنگائی ہمارے لئے بھی تکلیف دہ ہے، لیکن موجودہ وزیر خزانہ کو بنیادی ٹاسک دیا ہے کہ گروتھ ریٹ میں اضافہ کیا جائے۔ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے سستا پٹرول مل رہا ہے، ہم اس پر ٹیکس لگا کر پیسے اکٹھے کر سکتے تھے لیکن عوام کو سہولت دینے کے لئے مزید ٹیکس نہیں بڑھائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اشیائے خورونوش، پٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل اور دیگر چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بدقسمتی سے پوری دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے۔ گیس منگوانے کے معاہدے سابق حکومت نے کئے۔ ہم وہ بجلی استعمال کریں یا نہ کریں لیکن ہمیں وہ پیسے دینے پڑیں گے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر نظر ثانی کر کے پونے دو سو ارب روپے کی بچت کی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ایل این جی کا قطر کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس سے ن لیگ کے معاہدے کی نسبت دس سالوں میں تین ارب ڈالر سستی گیس ملے گی۔ فیصل آباد سے شہری محمد ثقلین نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہتری آئی ہے، اگرچہ کچھ کاروبار بھارت اور بنگلہ دیش میں منتقل ہوا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت الٹا لٹک جائے تو اپوزیشن مزید مزید ڈیمانڈ کرے گی، وہ تو حکومت پر تنقید کرے گی لیکن مجھے میڈیا پر حیرت ہوتی ہے، یہ بات سچ ہے کہ مہنگائی موجود ہے لیکن تیس سالوں میں دو جماعتوں نے ملک میں لوٹ مار کی انتہا کر دی۔ شریف خاندان لوٹ مار کر کے ملک سے بھاگ چکا ہے۔ آج تو عدلیہ آزاد ہے تو کیوں یہ عدلیہ سے رجوع نہیں کرتے۔ انہوں نے میرے خلاف انتقامی کارروائی کی حالانکہ میں باہر سے فلیٹ بیچ کر پیسے پاکستان لایا تھا لیکن یہ ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے کہ ان کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کا وزیراعظم بھی ان گھروں میں نہیں رہ سکتا۔ حکومت میں رہوں یا نہیں لیکن ان کو پیسہ عوام کو واپس کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر دوست ممالک کی مدد سے ہم دیوالیہ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق کسانوں کی آمدنی میں گیارہ سو ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کو بھی کرونا سے بچایا ہے اور ان کا کاروبار بھی بچایا ہے۔ راولپنڈی سے ڈاکٹر شاہد ممتاز عباسی کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم دس ارب درخت لگا رہے ہیں اس کے علاوہ شہروں میں بھی جنگل لگا رہے ہیں۔ دبئی سے محمد عثمان کے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر ستائیسویں شب حملہ کیا جو قابل مذمت ہے، وزیرخارجہ کو ہدایت کی ہے کہ مسلم ممالک کے سفراء سے بات کریں۔ اس کے علاوہ محمد بن سلمان سے بھی اسلامو فوبیا پر بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور کو قانون کے نیچے لانے تک فلاحی ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔ قانون کی بالادستی کے بعد ہی کرپشن ختم ہوتی ہے، جب قانون کی بالادستی ہو گی تو ذخیرہ اندوزی ختم ہو گی اور قوم خوشحال ہو گی۔ مدینہ ریاست میں زکوۃ لینے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ وہاں قانون کی بالادستی تھی۔