امریکہ کا محبوب مشغلہ اور مذہبی انتہا پسندی!

May 12, 2021

جمہوریت، انسانی حقوق اور سیکولرزم کے چیمپئین امریکہ نے اپنے قیام اور اعلان آزادی سے قبل امریکہ کی مقامی آبادی (ریڈ انڈینز) کی جس طرح نسل کشی کی وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن اسکے بعد بھی ، امریکی عوام اور حکومتوں کا پسندیدہ کھیل اور مشغلہ جنگ ہی رہا ہے۔ امریکہ کو آزاد ہوئے 243 برس ہوئے ہیں ، اور اپنی آزادی سے اب تک امریکہ ان 243 برسوں میں سے 225 برس کسی نہ کسی ملک کیخلاف حالت جنگ میں رہا ہے۔ 1775 تا 1783امریکہ میں ’’ جنگِ ِانقلاب‘‘ ہوئی جس میںمتاثرین کی تعداد پینتیس لاکھ کے قریب تھی۔ اس جنگ میں امریکہ کا نعرہ جو اس جنگ میں استعمال ہونیوالے پرچم پر لکھا ہوتا تھا ، وہ تھا، Join or Die۔ یعنی جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئین کا کہنا تھا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ مل جائیں یا پھر اختلاف کی صورت میں آپکو زندہ رہنے کا حق نہیں ۔1812 میں امریکہ نے برطانیہ کیخلاف اعلان جنگ کر دیا۔ چار برس تک جاری رہنے والی اس جنگ ،کا مقصد کینیڈا پرقبضہ کرنا تھا( امریکہ کو ناکامی ہوئی)۔ 1846 میں امریکی کانگریس نے میکسیکو کیخلاف جنگ چھیڑ دی  جسکا اختتام 1848 میں ہوا اور اسکے نتیجے میں امریکہ نے کیلیفورنیا، کولاریڈو اور ایری زونا سمت بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ 1861 تا 1865 امریکہ میں Civil War کا میدان سجا جس میں سوا چھ لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں۔ 1898 میں سپین کے خلاف اور 1914 تا 1918 پہلی جنگ عظیم۔ اسکے بعد دوسری جنگ عظیم(1939-45)۔ 1950 میں اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے جنوبی کوریا کیخلاف جنگ کا آغاز کیا جو تین برس تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پینتیس ہزار کے قریب انسانی جانیں لقمہ اجل بنیں۔ پھر مشہور زمانہ ویتنام کی جنگ (1959- 1975)۔ اسکے بعد سے آج تک مسلمانوں کی شامت کا دور ہے لیکن اب امریکہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ٹیکنالوجی اور پیسے کے زور پر جہاں مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کیا ، وہاں اس بات کا بھی خیال رکھا کہ ان جنگوں میں امریکہ کا اپنی جانی نقصان کم سے کم ہو، بلکہ مالی نقصان بھی نہ ہو، کیونکہ ان جنگوں کا خرچہ بھی امریکہ بہادر نے دوسرے مسلمان ممالک سے ہی وصول کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کیلئے یہ سب ایک نہایت نفع بخش کاروبار ہے۔ اس میں سب سے پہلے1990 میں ہونے والی دو سالہ خلیج کی جنگ جس میں ایک بار پھر اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کی گئی۔ 2001 سے امریکا افغان جنگ لڑ رہا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں ابتک جاری ہے۔ 2003 میں ایک بار پھر اقوام متحدہ کی آشیر باد کے ساتھ امریکہ اور اسکے حواریوں نے عراق کو عراق سے آزادی دلوانے کیلئے عراق پر ہی حملہ کر دیا۔  
اگر مذہبی انتہا پسندی کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو امریکہ کی داخلی سیاست کا مطالعہ کرلیں۔ ’’سیکولر امریکہ‘‘ کے تمام صدور میں جارج واشنگٹن سے لیکر امریکہ کے موجودہ صدر ( بائیڈن) تک دو کے علاوہ تمام صدور ’’پروٹسٹنٹ عیسائی‘‘ تھے۔ صرف ’’جان ایف کینیڈی‘‘ رومن کیتھولک تھے اور شاید اسی جرم میں انکو اپنا دور صدارت مکمل ہونے سے قبل ہی 1963 میں قتل کر دیا گیا۔ بائیڈن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رومن کیتھولک ہیں۔ لیکن وہ کتنے مذہبی ہیں اور کس حد تک امریکہ پر حقیقی حکومت کر سکتے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ قریب قریب تمام امریکی صدور کے پروٹسنٹ ہونے کی سیاسی اہمیت سمجھنے کیلئے یہودیت عیسائیت اور صہیونیت کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ِ ۔ یہودیت ایک مذہب ہے اور بنی اسرائیل کے وہ افراد جو تورات کی تعلیمات کیمطابق زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں وہ یہودی ہیں۔ انکا مذہبی اعتقاد ہے کہ ان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ خدا کی جانب سے امتحان ہے اور یہ کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ریاستی یا سیاسی ایجنڈا اختیار کرنا تورات کی تعلیمات کیخلاف ہے۔ اسی لیے وہ یروشلم پر قبضہ یا اسرائیل کے زبردستی قیام کے بھی مخالف ہیں۔ اسی لیے خود یہودیوں میںZionism کیخلاف بھی کچھ تحاریک چل رہی ہیں( جیسے کہ "Neturei Karta")۔ صیہونیت ایک انتہا پسند مذہبی اور ریاستی نظریہ ہے جو اہل مغر ب میں ہونیوالی مذہبی جنگوں کے نتیجے میں ظہور میں آیا۔ ان میں سب سے اہم رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان لڑی جانیوالی ’’ تیس سالہ جنگ ‘‘ تھی جس کے نتیجے میں صیہونیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ اور پروٹسنٹ عیسائی بڑی تعداد میں اس نظریے کو اپنا کر Christian Zionist بن گئے۔ اس نظریے کیلئے لفظ Zionism پہلی مرتبہ 1890 میں Nathan Birnbaum نام کے یہودی نے استعمال کیا ۔ اسکے بعد 1896 میں ’’Theodor Herzl‘‘ نامی ایک شخص نے اس نظریے پر باقاعدہ عملی کام کا آغازکیا اور پہلے یورپ کے یہودیوں پر مظالم اور پھر ’’ مبینہ ہالوکاسٹ‘‘ کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ یہودیوں کے جذبات کو بھڑکانے کیلئے انکی عبرانی کتب میں موجود نظریے '' The Return to Zion" کو بنیاد کر باقاعدہ Zionist (صیہونیت) تحریک کا آغاز کیا گیا۔ اس تحریک کی بنیاد یہودی مذہب کے بجائے اس بات پر ہے کہ وہ تمام دنیا سے اپنے اوپر کیے جانے والے ’’ مبینہ مظالم‘‘ کا بدلہ لیں کیونکہ وہ تمام مذاہب اور تمام نسلوں سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ اس انتہا پسند انہ ایجنڈے کے بہت سے اتحادی ہیں جن میں کرسچن (عیسائی ) بھی شامل ہیں۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے برعکس ان ’’ پروٹسٹنٹ صیہونی عیسائیوں‘‘ کا ماننا ہے کہ جب تک گریٹر اسرائیل کا قیام نہیں ہوگا۔ اس وقت تک حضرت عیسیٰؑ کا ظہور نہیں ہو گا۔
قصہ مختصر یہ کہ ’’سیکولر امریکا ‘‘ کی جنگ سے محبت، سیاست اور امریکی صدور کی تاریخ خود بتا رہی ہے کہ کون سے ملک اور کن ممالک کی عوام دراصل ’’مذہبی جنونی‘‘ اور انتہا پسند ہے ۔ کون سے ممالک اور اقوام در اصل اپنے مذہبی جنونی اور انتہا پسند ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور نعرے انسانیت اور سیکولرزم کے لگا رہے ہیں۔ ان سے کون سوال کرے کہ کون سی انسانیت، کونسا سیکولرزم ، کونسی مذہبی آزدی اور کونسی برداشت؟ عملی طور پر یہ خود جو کچھ کر رہے ہیں وہ اپنے افسانوں میں اپنے میڈیا کی طاقت سے مسلمانوں سے منسوب کر رہے ہیں۔ کیا کبھی مسلمانوں میں یہ ہمت پیدا ہو گی کہ وہ آواز بلند کریں اور یہ حقائق دنیا کے سامنے لا کر امریکہ اور صیہونی طاقتوں کو آئینہ دکھائیں اور دنیا سے پوچھیں کہ جنگیں ، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت دراصل کس کا محبوب مشغلہ ہے؟ 

مزیدخبریں