اسرائیلی فوجوں نے فلسطینیوں پر ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے گزشتہ روز غزہ میں فضائی حملوں کے دوران 9 بچوں سمیت 20 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اس فضائی حملے میں چھ سو سے زائد فلسطینی باشندے زخمی بھی ہوئے۔ انتہاء پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں آگ لگا دی۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد ہر طرف خون‘ لاشیں اور زخمی نظر آرہے تھے۔
دوسری طرف قبلۂ اول کے تحفظ کی خاطر فلسطینی عوام ڈٹ گئے اور یہودیوں کے مسجدالاقصیٰ میں مارچ کے منصوبے پر فلسطینیوں نے رات مسجد اقصیٰ میں گزاری تاکہ انتہاء پسند یہودیوں کو داخلے سے روکا جاسکے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہودیوں کے مسجد میں داخلہ کیلئے راستہ صاف کرنے کا حکم دیا جس پر ہزاروں فوجیوں نے پیر کی صبح قبلۂ اول پر دھاوا بول دیا اور بے بس فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ نمازیوں پر ربڑ کی کوٹنگ والی گولیاں برسائیں‘ شیلنگ کی‘ بم بھی پھینکے اور انتہاء پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں آگ لگا دی۔ ان حملوں میں زخمی ہونیوالے چھ سو سے زائد افراد میں کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اسکے باوجود نہتے فلسطینی ظالم اسرائیلی فوجوں کے آگے عزم و جرأت کی دیوار بن گئے اور اسرائیلی مظالم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے قابض فورسز پر پتھرائو کرتے ہوئے آخری دم تک قبلۂ اول کے تحفظ کا اعلان کیا۔
سفاک و بے رحم اسرائیلی فوجیوں نے حملے کے دوران خواتین کو بھی نہیں بخشا اور انہیں بے دریغ گرفتار کیا۔ گرفتاری کے دوران مسکراتے ہوئے اسرائیلی مظالم برداشت کرتے ایک فلسطینی بچی کی تصویر گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی۔ اسی طرح ایک یہودی شہری نے مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطینیوں پر گاڑی چڑھا دی جس سے متعدد فلسطینی زخمی ہوئے۔ مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجوں کے حملوں اور ننگ انسانیت مظالم کا سلسلہ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے اور یوم القدس کے موقع پر صہیونی فوجوں نے غزہ میں قیامت صغریٰ برپا کر دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صہیونی فوجوں کے حملوں میں اب تک دو سو سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوجوں نے پہلا حملہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے دوران کیا اور دستی بموں کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ فلسطینی باشندے صہیونیوں کی مزاحمت کیلئے ڈٹ گئے تو ان پر مظالم کا سلسلہ اور بھی دراز کر دیا گیا۔ فلسطینیوں پر مظالم کے یہ روح فرسا مناظر مقامی اور عالمی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھے۔ ترکی اور ایران کا اس پر فوری ردعمل سامنے آیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فلسطینی صدر محمود عباسی اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور اسرائیلی حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت پر حملے کے مترادف قرار دیا جبکہ اسرائیل کے اس سفاکانہ اقدام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس بھی خاموش نہ رہ سکے جنہوں نے اسرائیلی حکام کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ تمام قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کیخلاف کردار ادا کریں۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں اسرائیل پر زور دیا کہ وہ انہدام اور بے دخلی کے عمل کو بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قوانین کی روشنی میں روک دے۔ اسی طرح اسرائیلی فوجیوں کی اس جنونیت کا امریکہ‘ روس‘ یورپی یونین اور خلیجی ممالک کے بعض سفیروں نے بھی نوٹس لیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے مسلمانوں کے مقدس ماہ کے دوران صورتحال مزید خراب ہو جائے۔
گزشتہ روز یواین سلامتی کونسل کا بھی ہنگامی اجلاس ہوا جس میں یروشلم کی تازہ ترین صورتحال پر غور کیا گیا۔ اگرچہ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں بھی فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی مظالم پر غور کیا گیا تاہم کسی ٹھوس لائحہ عمل کے بغیر یہ اجلاس گفتند‘ نشستند‘ برخاستند کے مصداق ختم ہو گیا جبکہ اسرائیلی مظالم کے چار روز بعد اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے انگڑائی لی اور منگل کے روز اپنے اجلاس میں محض تشویش کے اظہار پر مبنی رسمی کارروائی کی۔ جو ہنود و یہود و نصاریٰ کے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے ڈھائے جانیوالے مظالم اور انکے توسیع پسندانہ عزائم کیخلاف مسلم قیادتوں کی بے حسی اور بے حمیتی کا مظہر ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ امریکہ کے سابق ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو مسلم دنیا کیخلاف اپنا صیہونی ایجنڈا رکھتے تھے‘ اقتدار سنبھالتے ہی قبلۂ اول بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ کی حوصلہ افزائی کی اور یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم کرکے اسے اسرائیلی دارالحکومت قرار دیا جس سے ارض فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط مستحکم بنانے کیلئے اسرائیل کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ٹرمپ کے اس اقدام کیخلاف قرارداد منظور کرتے ہوئے انہیں اس سے رجوع کرنے کا کہا مگر ٹرمپ نے یواین قرارداد کو بھی ٹھوکر ماردی جس سے مسلم دنیا کیخلاف انکے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے تھے مگر مسلم قیادتوں نے اپنی مصلحتوں اور مفادات کے تابع ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی پالیسی اختیار کی حتٰی کہ ریاض میں منعقدہ مسلم نیٹو ممالک کے اجلاس میں بھی ٹرمپ کو مدعو کرکے ان کیلئے خیرسگالی کا پیغام دیا گیا۔ ٹرمپ نے اسی اجلاس میں ایران کو دہشت گرد ملک قرار دیا اور اقوام عالم کو انکے مقاطعہ کی تلقین کی جبکہ فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ دراز کرنے پر ٹرمپ اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکتے رہے۔ بے شک یہ مسلم قیادتوں کی بے عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسرائیلی فوجیں مسجد اقصیٰ میں گھس کر نمازیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں اور انہیں روزے کی حالت میں فضائی اور زمینی حملے کرکے بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔ ان مظالم پر انسانیت کے ناطے پوری دنیا تڑپ رہی ہے مگر مسلم قیادتیں آج بھی خواب خرگوش میں پڑی ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بے شک مختلف ممالک کے پارلیمانی سربراہوں کو مراسلے بھجوا کر فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی مظالم کا نوٹس لینے کا کہا ہے اور انہیں باور کرایا ہے کہ نہتے فلسطینیوں پر ایسی کارروائیاں بین الاقوامی حقوق و قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے تاہم پاکستان کی جانب سے بھی اب تک باضابطہ طور پر اسرائیلی مظالم کیخلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا جبکہ عرب ممالک تو اسرائیلی مظالم پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں جو اس امر کا عکاس ہے کہ…؎ ’’حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے‘‘ اگر مسلم دنیا نے اسرائیلی اور بھارتی فوجوں کے ننگ انسانیت مظالم پر اسی طرح مصلحتوں کے لبادے اوڑھے رکھے تو الحادی قوتوں کو مسلم دنیا میں انتشار پیدا کرنے اور ایک ایک کرکے مارنے کا کیوں نادر موقع نہیں ملے گا۔ آج قبلۂ اول صہیونی مظالم سے محفوظ نہیں اور اس کا صحن مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو چکا ہے تو کل کو ہمارے دوسرے مقدس مقامات بھی کیسے محفوظ رہ پائیں گے۔ آج مسلم دنیا کو ایسی بے باک قیادت کی ضرورت ہے جو الحادی قوتوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے مسلم امہ کو اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پرو دے۔