اکادمی ادبیا ت پاکستان کے تحت پریم چند اور افسانے لیکچراورعید ملن مشاعرہ

May 12, 2022


کراچی (کلچرل ڈیسک) اکادمی ادبیا ت پاکستان کراچی کے زیراہتمام  ’’پریم چند اور افسانے لیکچراورعید ملن مشاعرہ‘‘  کا انعقادکیا گیا۔جس کی صدارت معروف شاعر افسانہ نگار پروفیسر خیال آفاقی نے کی۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ  پریم چند کے معاشرتی اور سیاسی نطریات کے ارتقا میں ایک نئے سنگِ میل کا نشان ہے اور اُس نقطہ نظر کا اختیار کرنے کا پتا دیتا ہے جس پر جدید سوشلزم کا گہرا اثر ہے۔ ایک سال بعد ، یعنی ۱۹۳۶ء میں وہ نئی نئی تشکیل میںآنے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کرنے پر راضی ہوگئے۔ میں اگلے باب میں اس انجمن اور پریم چند سے اس کے تعلق کے بارے میں ذرازیادہ تفصیل سے بات کروں گا۔ فی الحال یہ کہنا کافی ہوگاکہ اس کی بنیادپڑنے سے دودہائیاں پہلے پریم چند نے نثری افسانے کی اُن بہترین مثالوں کی داغ بیل ڈال دی تھی جو انجمن کے مصنفین تخلیق کرنے والے تھے۔ ’’کفن ‘‘ کی فنی قوت اتنی عظیم ہے کہ اس بات کا شدید ترین افسوس ہوتا ہے کہ پریم چند اسے لکھنے کے بعد جلدی اس دُنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اگر وہ چند سال اور زندہ رہتے تو محسوس ہوتاہے کہ وہ یقینا ایسی نگارشات تخلیق کرتے جو اُن کی موجودہ عظیم تحریروں سے بھی اعلیٰ ہوتیں، جن کی بدولت اُن کا نام نہ صرف اُن کے اپنے وطن میں، بلکہ دوسری زبانوں میں اُن کے تراجم کے ذریعے دنیا بھر میں زندہ رہے گا۔عرفان علی عابدی نے کہا کہ ُن کے امریکن مترجم David Rubinپریم چند کے افسانوں کے اپنے انتخاب (The Woprld of Prem Chand) کے دیباچے میں لکھتے ہیںکہ ’’پریم چند نے بلاشرکتِ غیرے (اُردو اور ہندی) افسانے کو بے مقصدرومانی داستان گوئی کی دلدل سے نکال کر حقیقت پسند انہ افسانے کی بلند سطح پر پہنچایا ‘‘ ڈیوڈروبن سے بصد ادب پریم چند کا کمال یہ نہیں تھا۔ کم ازکم ہوسکتا ہے ہندی کے معاملہ میںاُن کا یہ کمال ہو(اور اس نکتے پر میں کوئی فیصلہ صادر کرنے کے قابل نہیں ہوں)لیکن جہاں تک اُردو کا تعلق ہے ، یہ کہنا بالکل غلط ہے۔

مزیدخبریں