اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے۔ پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ 1970ء سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی تو ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے مسلسل دوسرے روز دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے، ارکان کو انحراف سے روکنے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی۔ اظہر صدیق کا کہنا تھاکہ16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی، منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کے برعکس حمزہ شہباز کو ووٹ دیا، منحرف ارکان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمشن میں زیر التوا ہے۔ ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے پانچ مئی کے اخبار میں شائع آرٹیکل کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یہ آرٹیکل کس نے لکھا اور کب شائع ہوا۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ آرٹیکل پانچ مئی کو شائع ہوا، رائٹر کا نام بعد میں بتا دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم الیکشن کمیشن میں زیرسماعت نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے، منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہے، میرا مقدمہ یہ ہے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپکی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر، کچھ ادھر ہیں اور ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں، ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں، آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی ادھر ہے، جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے، ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں۔ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ انڈیا میں منحرف ارکان کے لئے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ انڈیا کے 10 شیڈول میں منحرف رکن کی نااہلی کی میعاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھائیس مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی، اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی،یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی، اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں، منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کا کوئی مقصد ہے، آئینی ترامیم کے ذریعے تریسٹھ اے کو لایا گیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، آرٹیکل 62(1) ایف کے اطلاق کی بھی بڑی شرائط ہیں، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ آرٹیکل 62(1) ایف کو پڑھ سکتے ہیں؟۔ پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ 1970سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے جواب دیا کہ میری نظر میں قانون غیر موثر ہے، ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو غلط اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے، قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے، ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے؟۔ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں، سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟، ڈی سیٹ ہونا توآئینی نتیجہ ہے۔ جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا، اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اسکے شواہد کیا ہوں گے؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ انحراف بذات حود ایک آئینی جرم ہے، مخرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے۔ ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہوئے تو سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔ اس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ منصور عثمان اعوان ایڈووکیٹ کا دلائل میں کہنا تھا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا۔ منصور اعوان نے کہاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کرتا ہے، قانون سازوں نے منحرف رکن کے لیے نااہلی کی میعاد نہیں رکھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے آج وہ سیاسی شخصیت سینیٹر ہے۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اسکی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے تاہم جس نے پیسے لیکر انحراف کیا اسکی سزا سخت ہونی چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگرضمیر کی بات ہے تو انحراف نہ کریں، انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے کیونکہ انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں، وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا، منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں۔ اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہے گی تو اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے ایسے معاملات پر کہیں لائن کھینچنا پڑے گی۔ آپ پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے، کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں، پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرے، پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کاروائی نہ کرے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھائو، ہیجان، دبائو اور عدم استحکام موجود ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہاکہ عدالتی بحث سے کسی نا کسی سمت کا تعین ہوجائے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہر معاملہ عدالت میں آرہا ہے ہم یہاں بیٹھے جماعتوں کے آپس کے اور اندونی معاملات کو حل کرنے کیلئے ہیں۔ اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا۔ منصور اعوان ایڈووکیٹ نے کہاکہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے چار سوالات اٹھائے کہ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں؟۔ کیا آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے؟۔ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں؟۔ کیا آرٹیکل 63 اے کا کوئی اثر بھی ہونا چاہئے؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ آئین آزادی اظہار رائے کا حق بھی دیتا ہے، یہاں کہا جا رہا منحرف رکن کی سزا بڑھا دیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہوئے تو عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کردی اورکیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
تا حیات پابندی بڑی سزا ، 70ء سے چلی میوزیکل چئیر کو ختم ہونا چا ئیے
May 12, 2022