جناب وزیراعظم، تیل کی آسمان سے چھوتی قیمتوں نے دنیا بھر کو پریشان کررکھا ہے۔پاکستان کی کاروباری برادری خون اور پسینہ ایک کرکے سے ملک کے لیے جو ڈالر کماتی ہے وہ تیل کی خریداری پر خرچ ہوجاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ تیل کی کھپت 517000 بیرل یومیہ ہے۔ اس صورتحال پر آپ سے زیادہ پریشان اور کون ہوگا۔ لاہور چیمبر جیسے بڑے ادارے کے سربراہ اور کاروباری برادری کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے حل تجویز کروں۔
محترم وزیراعظم ، عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت 110 امریکی ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا آئل امپورٹ بل بھی تیزی سے بڑھا۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران پاکستانی درآمدات 14.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً سو فیصد زیادہ ہیں۔ توانائی ، بالخصوص پٹرولیم مصنوعات کی فوری بچت کے لیے کچھ قلیل المدت تجاویز اس توقع کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ ان پر فوری عمل درآمد ہوگا۔ میری تجویز ہے کہ تمام سرکاری اور نجی شعبے کے دفاتر ہفتہ اور اتوار کو بند رہیں جبکہ باقی ہفتے کے دنوں میں کام کے اوقات میں ایک گھنٹے کا اضافہ کردیا جائے۔ اتوار کو مکمل پٹرول فری دن قرار دے دیا جائے اور صرف مریضوں کو ہی اس سے استثنیٰ حاصل ہو۔ اتوار کے روز عوام کو اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے پیدل یا پھرسائیکل کے ذریعے قریبی دوکانوں پر جانے کی ترغیب دی جائے۔ 1800سی سی یا اس سے زیادہ کی لگژری گاڑیوں کی درآمدات کو ٹیرف اقدامات کے ذریعے کم کیا جائے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بھی کم ہوگا۔ جو 1800 سی سی کی گاڑیاں درآمد ہوچکی ہیں ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ میری تجویز ہے کہ فیول سبسڈی ٹارگٹڈ ہونی چاہیے نہ کہ سب کے لیے۔ اسوقت موٹرسائیکل اور انتہائی لگژری گاڑیوں کو ایک ہی ریٹ پر پٹرول فراہم کیا جارہا ہے۔ سبسڈی صرف 1800سی سی سے کم طاقت کی گاڑیوں کو ہی پٹرول پر سبسڈی دی جائے اور اس مقصد کے لیے خصوصی نظام وضع کیا جائے۔ پٹرول کی فراہمی کے لیے راشن سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ اس کے فضول استعمال کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو انتہائی بہترین اور دوجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ ذاتی گاڑی کے استعمال کا رحجان کم ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ مہم بھی چلائی جائے۔ ساری دنیا میں اب معمول بن چکا ہے کہ کاروباری سرگرمیاں اور معمولات زندگی سورج کی روشنی میں ہی سرانجام دئیے جائیں تاکہ مصنوعی روشنی پر ہونے والے اخراجات کم سے کم کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس رحجان کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، معمولات زندگی سورج کی روشنی میں ہی سرانجام دیے جائیں اور کمرشل مارکیٹیں بھی اس میں شامل ہوں۔ بجلی کی کھپت کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام نجی، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سرکاری عمارات میں پری پیڈ میٹر نصب کیے جائیں۔ جب بجلی استعمال کرنے کے لیے رقم پہلے ادا کرنا پڑے گی تو سب کو یہ بخوبی اندازہ ہوگا کہ بجلی کس قدر استعمال کرنی ہے، اس طرح بجلی کا ضیاع روکا جاسکے گا۔ انرجی سیکٹر کے بحران میں پرانے اور خزانے پر بوجھ معاہدوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان معاہدوں کو جاری رکھا گیا تو صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا ان معاہدوں سے فوری طور پر جان چھڑائی جائے۔ جو نئے معاہدے کیے جائیں ان میں ملک، صنعت و تجارت کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضرور کی جائے۔ توانائی کی پیداوار کے لیے روایتی ذرائع پر انحصار چھوڑ کر متبادل ذرائع کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جناب وزیراعظم، معاشی حالات مشکل ضرور ہیں لیکن دنیا کی بہت سی اقوام نے ان سے بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کیا ہے اور پھر ان پر قابو پاکر بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی ہیں لہٰذا ان شاء اللہ ہم بھی ان پر قابو پاکر معاشی استحکام حاصل کریں گے۔ یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ سخت حالات میں سخت فیصلے کرنا ہی پڑتے ہیں لہٰذا وزیراعظم شہباز شریف قدم آگے بڑھائیں، ساری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے پرعزم ہے۔