روح اورزندگی کے بارے کچھ حقائق اس طرح سے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ کہاگیا ’’اور تجھ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تمہیں صرف تھوڑا ہی علم دیاگیا ہے‘‘ ۔یہ روح حیوان میں زندگی کا مبداء ومنبع ہے اس میں روح پڑنے سے حیوان زندہ اور اس میں سے روح کے جدا ہونے سے حیوان مردہ ہوجاتاہے پھر گہرے غور سے کام لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بدن میں کچھ ایسے لطیف بخارات ہیں جو قلب میں سے پیدا ہوتے ہیں اور قوائے حساسہ محرکہ اور مدبر کا غذاکو اٹھائے رہتے ہیں اور ان میں طب کا حکم چلتاہے اور تجربہ یہ بات واضح کرتاہے کہ ان بخارات کے رقیق گاڑھا صاف اور مکدر ہونے کا قوتوں پر اور ان قوتوں سے پیدا ہونے والے فعال پر خاص اثرہوتاہے اور جب کسی عضو پر یا اس عضو کے مناسب بخارات کی پیدائش پر کوئی آفت اور خرابی آتی ہے تو ان بخارات میں بھی خرابی آجاتی ہے اور ان کے افعال میں گڑ بڑ پیدا ہوجاتی ہے اوریہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ان بخارات کا پیدا ہونا زندگی کو اور ان کا تحلیل ہوجانا موت کا مستلزم ہے۔ ظاہر نظر میں تویہی ہے اور اگرعمیق نظری سے کام لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ یہ بخارات تو روح کا ادنیٰ طبقہ ہیں اور بدن میں ان کی مثال یعنی بدن سے ان کا تعلق ایسے ہی جیسے کہ گلاب میں آب گلاب اور کوئلے میں آگ ہوتی ہے پھر جب مزید دقیق نظرسے دیکھاجائے تو واضح ہوجاتاہے کہ یہ بخارات روح نہیں بلکہ روح حقیقی روح کا مرکب اور اس کے بدن سے متعلق ہونے کا مادہ ہے اور اس کیلئے دلیل یہ ہے کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بچہ جوان پھر بوڑھا ہوجاتاہے اور اس کے بدنی اخلاط بدلتے رہتے ہیں اور وہ روح بخارات جوکہ ان اخلاط سے پیدا ہوتے ہیں وہ ہزار گنا زیادہ ہوجاتے ہیں اور گاہے وہ چھوٹاہوتاہے اور گاہے بڑا ہوجاتاہے۔ گاہے سیاہ ہوتاہے گاہے سفید ہوتاہے اور گاہے جاہل ہوتاہے گاہے عالم ہوتاہے۔ اسی طرح اس پر کئی حالات بدل بدل کرآتے رہتے ہیں حالانکہ وہ شخص وہی کا وہی ہے۔ چنانچہ وہ لڑکا ان عورض کا غیرہے اور اب ثابت ہوا کہ جس چیز کے ساتھ وہ انسان قائم ہے وہ یہ روح بخارات نہیں اورنہ یہ بدن ہے اور نہ یہ مشخصات ہیں جو ظاہر میں معلوم ہوتی اور دکھائی دیتی ہے بلکہ روح ایک منفرد حقیقت اور ایک نورانی نقطہ ہے جس کا حل ان متبدل اورمتغیر احوال سے الگ اور بلندہے جوکہ بعض توجواہر اور بعض اعراض ہیں اوریہ جیسے بڑے کے ساتھ ہے ویسے ہی چھوٹے جاندار کے ساتھ ہے اور جیسے سفید میں یہ روح حقیقی ہے اس طرح سیاہ میں بھی ہے اور تمام متقابلات واضداد میں یہ برابرموجود ہے اور اس کا پہلا تعلق تو روح ہوائی کے ساتھ ہے اور اس کے بعد ثانوی تعلق بدن سے بھی ہے اوریہ اس طرح ہے کہ بدن دراصل نسمہ (بخارات جن کو روح ہوائی کہاجاتاہے) سے مرکب ہے اوریہ روح حقیقی عالم قدس کی ایسی کھڑکی ہے کہ جس سے نسمہ پرہروہ چیز نازل ہوتی ہے۔ جس کی اسے استعداد ہو چنانچہ تغیرات دراصل ارضی استعدادات واسباب کے باعث ہوتے ہیں۔ بدن سے نسمہ روح ہوائی کے جدا ہونے کا نام موت ہے اور اس کے جدا ہونے کا باعث یہ ہوتاہے کہ بدن میں اس روح ہوائی کی تولید کی استعداد ختم ہوجاتی ہے اورجب مہلک امراض میں نسمہ روح ہوائی تحلیل ہوجاتی ہے تو حکمت الٰہی کے بموجب اس قدر نسمہ بخارات وروح ہوائی ضروری باقی رہتی ہے کہ ان سے روح الٰہی حقیقی کا تعلق درست وقائم رہے جیسے کہ جب تک ایک شیشی سے ہوا کو چوس لو تو ہوا سے خلاہوجاتاہے آخر وہ حد آجاتی ہے کہ مزید خلا نہیں ہوتا۔ اب تم مزید ہوا چوس نہیں سکو گے یا شیشی ہی ٹوٹ جائے گی اوریہ دراصل ہوا کی طبیعت سے پیدا ہونے والا راز ہے اس طرح نسمہ روح ہوائی میں بھی راز وستر اوراس کی ایک حد ہے جس سے تجاوز نہیں ہوتا اور جب آدمی مرجاتاہے تو اس کے نسمہ کی دوسری نشات ہوتی ہے پھر روح الٰہی حقیقی کے فیض کے باعث باقی ماندہ حس مشترک میں ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ جو عالم مثال کی مدد سے شنوائی ،بینائی اور گویائی کا کام دیتی ہے یعنی ایسی قوت ملتی ہے جو مجردات اورمحسوسات کے درمیان ہوتی ہے جس طرح کہ افلاک میں یکساں قوت رکھی ہوئی ہے اور اس صورت میں بسا اوقات عالم مثال کی مدد سے نسمہ میں نورانی یا ظلمانی لباس کی استعداد پیداہوجاتی ہے اور وہیں سے عالم برزخ کے عجائبات نمودہوتے ہیںپھر صور(سنکھ) پھونکاجائے گا یعنی جب باری الصور(صورتوں کے خالق) کی طرف سے وہ فیض عام آئے گا جو ابتدائے خلق کے وقت کے فیض کے بمنزلہ ہوگا جس وقت کہ ابدان میں ارواح ڈالی گئیں اور عالم توالید کی بنیاد رکھی گئی تھی۔