بتایا جا رہا ہے کہ نئی حکومت کی کوشش سے’’ آئی ایم ایف ‘‘نے پاکستان کے قرض کا حجم 6ارب ڈالر سے بڑھا کر 8ارب ڈالر کر دیا ہے جس پر حکومت پھولے نہیں سما رہی۔جتنا مرضی قرض لے لیں لیکن حالات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم غریب کیوں ہیں؟
یہ ضروری نہیں کہ جس ملک کے پاس قدرتی وسائل زیادہ ہوں وہ امیر اور جسکے پاس کم ہوں وہ غریب ہو۔ہم قدرتی وسائل سے مالامال ہیں جبکہ جاپان کے پاس جو تھوڑا سا رقبہ ہے اس کابھی80فیصد حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے،یہی نہیں بلکہ ہمارے برعکس جاپان اپنے کارخانوں میں استعمال ہونے والا خام مال دوسرے ممالک سے خریدتا ہے۔ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس ملک کی عمر کتنی ہے۔ہندوستان اور مصر دو ہزار سال کے ہوکر بھی مفلسی اور پسماندگی کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال کے ہو کر بھی امیر اور ترقی یافتہ ہیں۔ امیر اور غریب ممالک کے مینجمنٹ ایگزیکٹوزکی ذہانت و صلاحیت میں بھی ترقی یافتہ قوموں کے اپنے منتظمین کے بقول کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔
امیر اور غریب قوموں میں فرق دراصل رویّے کا ہوتا ہے جس کی بنیاد 9چیزوں پر قائم ہوتی ہے ۔پہلی قانون و میرٹ کا احترام، دوسری ضابطہ اخلاق کی پابندی،تیسری عزتِ نفس وخودداری،چوتھی احساسِ ذمہ داری،پانچویں کام سے محبت،چھٹی دوسروں کے حقوق کی پاسداری،ساتویں بچت اور خرچ کا سلیقہ،آٹھویںکوئی بڑا کام کرنے کی لگن اور نویںوقت کی پابندی ۔
ہم غریب اس لئے ہیں کہ ہمارے یہاں قانون و میرٹ کا احترام نہیں کیا جاتا۔ کسے معلوم نہیں کہ ہمارے قانون کے جالے میں مچھر مکھیاں ہی پھنستی ہیں لیکن جو طاقتور ہوتا ہے وہ اسے تہس نہس کر کے آگے بڑھ جاتا ہے جس کی مثال ایک بار نہیں بلکہ باربار سامنے آتی رہتی ہے۔رہا سوال میرٹ کا تو کون نہیں جانتا کہ کسی سرکاری محکمے میں ایک چپڑاسی کے عہدے پر بھی سفارش یا رشوت کے بغیر بھرتی نہیں ہوا جا سکتا ؟
ہم غریب اس لئے ہیں کہ ہماری اکثریت ضابطہء اخلاق کی پابندی نہیں کرتی۔کیا ہمارے اکثر حکمران ملک ،قوم اور آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا کربے وفائی نہیں کرتے اور خزانہ ء سرکار بھرنے کے بجائے اپنی تجوریاں نہیں بھرتے؟کیا ہمارے افسران و اہلکاران سرکاری اثاثوں کی حفاظت ویسے ہی کرتے ہیں جیسے اپنی املاک کی کرتے ہیں؟کیا ہمارے ڈاکٹر مرضی کی فیس لے کر بھی مریض کو وہ مسکراہٹ اور توجہ دیتے ہیں جو مرضی کی فیس لئے بغیربھی دینی چاہیے؟کیا ہمارے اساتذہ اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ہیں؟کیا ہمارے دکاندارزیادہ قیمت میں کم کوالٹی کی اشیاء فروخت نہیں کرتے ؟کیا ہم اپنے وطن کا خیال بھی ویسے ہی رکھتے ہیں جیسے گھر کا رکھتے ہیں؟
ہم غریب اس لئے ہیں کہ ہماری اکثریت عزتِ نفس و خودداری سے محروم ہے۔ ہم میںکتنے لوگ ایسے ہونگے جوصداقت و امانت کی راہ پر چلتے اورخود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہیں؟
ہم غریب اس لئے ہیں کہ ہمارا نصب العین ’’وقت گزاری‘‘ ہے،کتنے لوگ فرائض ِ منصبی ایمانداری سے انجام دیتے ہوں گے؟ کیا ہماری اکثریت مجبوراً کام پر نہیں جاتی ؟ہم غریب اس لئے ہیں کہ جیسے اپنے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں ویسے دوسروں کے حقوق کی نہیں کرتے؟ اُدھار پربنایا گیاوفاقی یا صوبائی بجٹ بھی کیوں نہ ہو لیکن اس کا 80فیصد حصہ غیرترقیاتی اور فقط20فیصدترقیاتی اخراجات پر مشتمل ہوتا ہے۔
ہم غریب اس لئے ہیں کہ لکیر کے فقیر ہیں،کسی کو کوئی نیا اور بڑا کام کرنے کی لگن نہیں؟بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ میرے بچپن کے ایک کلاس فیلو عطااللہ جیسا کوئی بچہ بڑا ہو کر سائنسدان بننے اور نیوٹن جیسا کوئی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو سارا سکول اس پر ہنسنے لگتا ہے۔اپنے تعلیمی اداروں کا سروے کر کے دیکھیے ،آپ کو شاید ہی کوئی بچہ ایسا ملے جو کچھ ’’ایجاد‘‘ کرنے کا خواب بھی دیکھتا ہو۔ہم غریب اسلیے ہیں کہ ہمیں وقت کی قدر و قیمت کا احساس نہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہم امیر اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویّے میں تبدیلی لانی ہوگی اوراپنے کردار کی بنیاد ان 9چیزوں پر استوار کرنی ہو گی جو ہماری غربت اور پسماندگی کی اصل وجہ ہیں ۔
ہم غریب کیوں ہیں؟
May 12, 2022