سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے. کسی بھی محفل میں جب کوئی صحافی بیٹھا ہوتا ہے اور بات سیاست پر ہو رہی تو صحافی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے کہ شاید اس کے پاس دنیا کی تمام خبریں ہوں گی کیونکہ یہ جرنلسٹ بھائی ہیں. اب چاہے جرنلسٹ بھائی '' پھوٹیں '' ہی سنائی جائے محفل کے لوگ اسے سچ ہی مانیں گے. آج کل کے دور میں سوشل میڈیا نے انفارمیشن کے حوالے سے ادھم مچا دیا ہے. یو ٹیوب چینلز کی بھرمار ہے، صحافی اور نان صحافی بھائی محض پیسے کمانے اور اپنے ویوز(دیکھنے والے افراد) بڑھانے کے چکر میں ایسے ایسے تھم نیل(سرخی یا عنوان) لگاتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے. کوئی مارشل لاء لگا رہا ہوتا ہے، کوئی اداروں میں تصادم کروا رہا ہے تو کوئی عالمی جنگ چھیڑ رہاہوتا ہے. الغرض کوئی ادارہ پوچھنے والا نہیں ہے، ڈس انفارمیشن کا طوفان سر گرم ہے.البتہ ابھی چند روز قبل سینئر صحافی سمیع ابراہیم کے خلاف حکومت نے اسی پیکا قانون کی بنیاد ایکشن لیا ہے جس پر کل تک انھیں اعتراض تھا، جسے وہ کالا قانون کہتے تھے اور آزادی صحافت پر قدغن قرار دیتے تھے. سیاست کی یہی تو خوبصورتی ہے جب تک اپوزیشن میں ہوں تو حکومت کے سب کام ناجائز ہوتے ہیں اور جسیے ہی اقتدار ملتا ہے تو سب کچھ جائز ہو جاتا ہے ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مہنگائی کے نام پر سخت تنقید کا نشانہ بناتی تھیں انھیں نااہل حکومت قرار دیتی تھیں، انکی معاشی پالیسیوں کو ملک کے لئے نقصان دہ ثابت کرتی تھیں . مسلم لیگ ن نے تو مہنگائی کے خلاف باقاعدہ مارچ کیا جسے '' مہنگائی مارچ '' کا نام دیا گیا اور اسکی قیادت موجود وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف نے کی. اب حالات ایسے ہیں کہ کل کی اپوزیشن آج کی مقتدرہ ہے، یہ وہی حکومت ہے جو کہتی تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہیے، ڈالر کی قیمت نہیں بڑھنی چاہیے، آٹا، دال، چینی سستی ہونی چاہیے. لیکن اسکے برعکس اشیائ ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے. بجلی کے نرخ بڑھ گئے ہیں، چکن کہ قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے. اور ابھی ممکن ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر کے لوگوں پر مہنگائی کا بم گرایا جائے گا۔
بہرحال شہباز شریف اور حمزہ شہباز اقتدار کے ایوانوں میں ہیں اب وہ عوام کی داد رسی کس حد تک کر سکتے ہیں یہ چند ماہ کا وقت ہی بتائے گا اگر تو حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکی تو آئندہ الیکشن میں سر اٹھا کر جا سکے گی اور اگر وہی پرانے حیلے بہانے چلتے رہے کہ مہنگائی کے ذمہ داران گذشتہ حکومت کے کردار ہیں تو پھر عوام میں انکو سوچ سمجھ کر جانا ہو گا. دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد زور و شور سے اپنی الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں بلا شبہ انکے جلسوں میں لوگ دھڑا دھڑ شرکت کر رہے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں عوام کا سمندر جمع کر کے عمران خان طاقتور حلقوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ عوام انکے ساتھ ہے. عمران خان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن بھی میدان میں آئی اور اپنے جلسوں کا شیڈول جاری کر دیا، بڑے جلسے کر کے مسلم لیگ ن بھی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے عوام انکے ساتھ ہے. تحریک انصاف اور ن لیگ کے جلسوں سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ عام انتخابات سر پر ہیں اور شاید اسی سال نومبر دسمبر میں ہی ہوں. اگر دیگر بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے بھی جلسوں کا انعقاد شروع کر دیا تو پھر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سال انتخابات کا سال ہی ہے. پاکستان تحریک انصاف تو اقتدار سے نکلنے کے فوراً بعد ہی الیکشن کروانے کے درپے ہے. عمران خان نے بیس مئی کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے. عمران خان اپنے جلسوں میں اپوزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حتیٰ کہ انھوں نے اداروں کو بھی نشانہ بنایا اور انھیں الیکشن کروانے کا کہا. عمران خان کے ورکرز بہت جذباتی ہیں اور اپنے قائد کی ہر بات کو وہ حرف آخر سمجھتے ہیں. جو کہ معاشرے کے لئے بہت خطرناک بات ہے. عدلیہ اور فوج پر کھلم کھلا تنقید کی جارہی ہے ۔
قارئین! ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے. تحمل یا برد باری سے کوئی ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں. سوشل میڈیا پر سیاسی وابستگی کی بنا پر ہونے والی لڑائیاں، گھروں تک پہنچ گئیں ہیں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم انکی خاطر کیوں اپنے دوستوں کو ناراض کرتے ہیں. لہٰذا سیاست کا جو خراب دور چل رہا ہے اس میں اپنے دوستوں، عزیزوں سے سیاسی بحث سے اجتناب کریں.