اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) الیکشن کمشن نے تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میںپی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے بتایا کہ 2013ء سے قبل فنڈنگ میں مسائل تھے جس پر پارٹی چیئرمین نے خط لکھا جبکہ کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کا نام لیکر فنڈنگ اکٹھی کی اور سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمہ دار نہیں۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور الیکشن کمشن پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2010ء میں پی ٹی آئی امریکہ میں رجسٹر ہوئی، کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کا نام لیکر فنڈنگ اکٹھی کی۔ پارٹی چیئرمین نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایات جاری کیں۔ سینٹرل سیکرٹری فنانس کی اجازت کے بغیر اکٹھی کی گئی فنڈنگ سے متعلق ہدایات دیں۔ سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمہ دار نہیں۔ کمشن کے ممبر ناصر درانی نے پوچھا کہ فنڈنگ کے ذرائع کیا تھے تو انور منصور نے جواب دیا کہ ذاتی حیثیت میں فنڈنگ لی گئی۔ پی ٹی آئی نے فنڈنگ کی تمام تفصیلات سکروٹنی کمیٹی میں جمع کرائیں، پی ٹی آئی فنڈز کا بین الاقوامی معیار پر ایکسٹرنل آڈٹ بھی کرایا جاتا رہا، فنڈنگ کا نظام بہتر بنانے کیلئے سینٹرل فنانس کمیٹی نے خط لکھا، 2013ء سے قبل فنڈنگ میں مسائل تھے جس پر پارٹی چیئرمین نے خط لکھا، غلطیوں کی نشان دہی کے بعد ذمہ داروں کو وارننگ لیٹر بھی دیئے گئے۔ انور منصور نے بتایا کہ ہماری ڈونیشن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی نے غیر ملکیوں سے کوئی فنڈنگ وصول نہیں کی۔ ممبر ناصر درانی نے پوچھا کہ ایجنٹس نے گڑ بڑ کی تو پارٹی نے کیا کارروائی کی؟۔ انور منصور نے جواب دیا کہ پارٹی نے گڑ بڑ کرنے والے ایجنٹس کو ہٹا دیا تھا، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکیوں نے پی ٹی آئی کو فنڈنگ دی، ''ایسا لگتا ہے'' اور ''ممکنہ طور پر'' کے نتائج اخذ کیے گئے، قانون میں امکانات کی کوئی حیثیت نہیں، غیر یقینی رپورٹ کو بنیاد بنا کر کیسے فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟، کمیٹی نے جن فنڈز پر سوالات اٹھائے وہ پارٹی کو موصول ہی نہیں ہوئے۔ ممبر شاہ محمد جتوئی نے پوچھا کہ ہٹائے گئے ایجنٹس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی؟ تو انور منصور نے بتایا کہ ایجنٹ کو پارٹی نے ہٹا دیا لیکن کارروائی نہیں کی۔ انور منصور نے مزید بتایا کہ ایجنٹس کو معاہدہ کے تحت پارٹی کیلئے فنڈز اکٹھے کرنے کی اجازت دی گئی، ایجنٹس رضاکارانہ طور پر پارٹی کیلئے کام کرتے تھے۔بیرسٹر احمد حسن نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ نصر اللہ کس ملک کا شہری تھا؟۔ الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔