اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں بریت درخواست میں نیب کو تیاری کرکے دلائل دینے کی ہدایت کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران احسن اقبال کی جانب سے ذوالفقار عباسی نقوی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کمنٹس فائل کر دیے ہیں؟۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ کمنٹس پہلے سے دائر ہیں، اب متفرق درخواست کے ساتھ اضافی دستاویزات جمع کرائی ہیں۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ احتساب عدالت کے آرڈر کو آپ نے چیلنج نہیں کیا، آپ اس حد تک مطمئن ہیں کہ یہ کرپشن نہیں، صرف اختیارات کے غلط استعمال کا کیس ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب آرڈیننس کی سیکشن نائن اے بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹسز سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے احد چیمہ والا کیس دیکھا؟۔ آپ کو اندازہ ہے کہ نیب نے کتنا نقصان پہنچایا؟۔ احد چیمہ اور ان کی طرح کے دیگر افسران کی داد رسی اور ازالہ کون کرے گا؟۔ اس بات کی نتائج ہیں جو سامنے آ گئے ہیں، ایگزیکٹو بہت سارے فیصلے نیک نیتی سے کرتے ہیں جس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے مگر وہ کرپشن نہیں، ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے، اسے کرپشن نہیں کہا جا سکتا جس سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیاکہ آپ بریگیڈیئر اسد منیر کو واپس لا سکتے ہیں؟، آپ احد چیمہ اور ان جیسے دیگر افسران کا نقصان پورا کر سکتے ہیں؟، یہ عوامی منصوبہ تھا جس پر پبلک فنڈز خرچ ہوئے، اس کی منظوری کس نے دی؟، کیا نیب کا کیس یہ ہے کہ اختیارات کے غلط استعمال سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا؟، کیا آپ نے احد چیمہ کا حالیہ بیان سنا ہے؟، کیا آپ کو معلوم ہے کہ نیب نے کتنا نقصان پہنچایا ہے؟، احد چیمہ اور ان جیسے بہت سے شاندار افسران کا ازالہ کون کرے گا، نیب کے ان اقدامات کے نتائج ہوتے ہیں اور وہ اب سامنے آ گئے ہیں، بہت سے فیصلے افسران نیک نیتی سے کرتے ہیں وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں، عدالت اپنے فیصلے میں کہہ چکی جتنا بھی نقصان ہو وہ کرپشن نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن اقبال کے خلاف نیب ریفرنس میں کچھ نہیں، احسن اقبال نے اکیلے منظوری بھی نہیں کی اور لوگ بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا نیب نے احسن اقبال کو ٹارگٹ کیا؟، سی ٹی ڈبلیو نے منظوری دی تو کیا احسن اقبال نے بندوق رکھ کر منظوری دلوائی؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پھر آپ معاملہ ایک اور طرف لے کر جا رہے ہیں، کیا میں بطور چیف جسٹس کہہ سکتا ہوں کہ مجھے پریشرائز کیا گیا؟، نیب نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف سیکرٹری کو معافی کیوں دی، چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ آئندہ سماعت پر تیاری کر کے آئیں اور دلائل دیں، عدالت نے کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی۔
ایگزیکٹو کے نیک نیتی سے کئے فیصلے کا نقصان ہوسکتا مگریہ کرپشن نہیں جسٹس اطہر
May 12, 2022