چھ دہائیوں سے قوم کو تقسیم کرنے میں کوشاں

May 12, 2022

میاں غفار احمد 
تقدیر کا انصاف دیکھیں کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے قوم کو تقسیم کرنے میں کوشاں تمام تر بااختیار سیاسی افراد اور ادارے اب خود تقسیم ہو رہے ہیں اور ہر جگہ شدید قسم کا نظریاتی، سیاسی اور سماجی اختلاف نظر آرہا ہے قوم کو تقسیم کرنے کا عمل پہلے پنجابی اور بنگالی سے شروع ہوا جس میں کئی فیکٹر شامل ہو گئے اور پھر اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ تقسیم کرنے والوں نے پھر بچے کھچے پاکستان پر "کام" شروع کر دیا اور آج دوسروں کو تقسیم کرنے کی سالہا سال سے جاری Devide and Rule کی پالیسی پر گامزن بااختیار از خود اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی قوم بہت تیزی سے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو رہی ہے کہ پاکستان میں اب مزید لوٹ مار کم از کم سیاسی اور انتظامی سطح پر روکی جائے اور محاسبہ کا عمل ہر سطح پر شروع ہو۔ عوام خواہ کسی بھی جماعت یا سیاسی گروہ اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہو اس ایک معاملے پر ایک پیج پر آ چکی ہے کہ پاکستان اگر آزاد ملک ہے تو اس کی پالیسی بھی آزاد ہو اور اپنی خود مختاری پرکسی بھی قسم کا کمپرومائز نہ کیا جائے۔ اس ملک کی سیاسی جماعتوں کا بھرم عوام کی نظر میں پہلے ہی سوالیہ نشان بن چکا تھا اس پر موجودہ حکومت کے بعض وزراء   نے چارج سنبھالنے ہی عوامی مفادات کے منافی بیانات داغ کر جلتی پر تیل کا کام کیا، نہ جانے وہ کس کو اور کیا پیغام دینا چاہتے ہیں مگر عوام میں تاثر تبدیل ہو چکا ہے اور ردعمل سے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ میں نے گزشتہ ہفتے عید کے حوالے سے اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والے چند اراکین اسمبلی کی مصروفیات بارے معلومات لیں تو رپورٹس کوئی اچھی ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے روح رواں اور سابق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار ویسے تو جہانگیر ترین کی جگہ لینا چاہتے ہیں اور جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں مگر حکومت کے خاتمے کے دن ہی سے وہ پشاور سے فلائٹ پکڑ کر  پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی منگنی کی تقریبات بھی لندن  میں کر رہے ہیں حالانکہ ان کی ہونے والی بہو اور ان کا سارا خاندان بھی پاکستان ہی میں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ جنوبی پنجاب کے مخدوم کبھی بھی جہانگیر ترین کی جگہ نہیں لے سکتے کہ یہ مخدوم دوسروں سے خرچ تو کروا سکتے ہیں خود خرچ نہیں کر سکتے اور پی ٹی آئی میں یہ حوصلہ صرف جہانگیر ترین اور علیم خان کے ہاں تھا ویسے بھی نسل در نسل "پھونکیں مارنے اور خالی دعائیں دینے والے" کچھ اور دے ہی کیسے سکتے ہیں، خواہ وہ حوصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ عید پر رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون نے سکیورٹی حصار میں اپنے آبائی علاقے میں نماز عید ادا کی اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی "نعرہ مستانہ" نہ لگا سکے مگر شہر میں وہ جہاں سے بھی گزرتے ہیں انہیں لوٹے دکھائے بھی جاتے ہیں اور لوٹے کی آوازیں بھی ان کے کانوں کی سماعتوں سے ٹکراتی ہیں ان کے لئے حلقہ انتخاب میں کسی جگہ افسوس کے لئے جانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ملتان کی تحصیل جلال پور پیروالا میں انہیں ایک فوت ہونے والے کے گھر افسوس کے لئے جانا تھا انہوں نے پہلے اپنے بندے بھیج کر کلیئرنس لی کہ وہاں کوئی آوازیں لگا کر رنگ میں بھنگ ڈالنے والے تو موجود نہ ہوں گے۔ پھر سید عباس نامی ان کے قریبی دوست نے ذمہ داری لی کہ وہاں کوئی آواز نہیں اٹھے گی مگر حالات دیکھ کر انہوں نے بھی رانا قاسم نون کو آنے سے روک دیا۔ 
جتوئی سے رکن قومی اسمبلی باسط سلطان بخاری جو کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بہت کھل کر بولتے تھے، عمر ے پر گئے مگر عید کے بعد واپس آنے کی بجائے اپنی اہلیہ کے ہمراہ زیارتوں پر چلے گئے اور ابھی تک حالات کے نارمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے مد مقابل جتوئی گروپ میں دم خم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق بخاری خاندان کی یہ ایسی عید کہ وہ عید کے موقع پر اور اس کے بعد بھی حلقے سے دور ہیں۔ ملتان میں اسی قسم کی صورتحال ملک احمد حسن ڈیہڑ کے ساتھ ہے جنہیں عمران خان کی قائم کردہ کمیٹی نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہ دیا تو انہوں نے کارکنوں کی بڑی تعداد کے ساتھ بسیں اور گاڑیاں بھر کر اسلام آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر تین روزہ دھرنا دیا اور پھر ٹکٹ لے کر ہی واپس آئے۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایک مشکل اور مختلف الخیال آبادی والے حلقے سے باآسانی کامیاب ہوئے مگر آج ان کا استقبال بھی لوٹے لوٹے کے نعروں سے ہو رہا ہے۔     ابھی الیکشن دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا مگر جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے دو متوقع وزرائے اعلیٰ کے نام ابھی سے سامنے آ چکے ہیں جن میں سے ایک تو پہلے ہی کی طرح مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں اور دوسرا نام مخدوم خسرو بختیار کا سامنے آ رہا ہے جو ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ رہے ہیں جس کے لئے انہوں نے لندن ہی سے روابط شروع کر دئیے ہیں۔ مظفرگڑھ سے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے اسلام آباد میں چند منٹ کی پریس کانفرنس کے ذریعے بھرپور انٹری ڈالی ہے مگر ان کے لئے مظفرگڑھ میں انتخابی صورتحال مشکل ہو رہی ہے کہ سابق آئی جی بلوچستان میاں محمد ایوب قریشی جنہوں نے سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے اپنے غیر معروف بھائی شاہد جمیل قریشی کو پہلے رکن قومی اسمبلی اور پھر وزیر مملکت برائے مواصلات بنوایا تھا۔ اس مرتبہ وہ خود میدان میں اترے ہیں اور انتہائی منظم انداز میں گزشتہ دو سال سے انتخابی مہم کچھ اس طرح سے چلا رہے ہیں گویا اگلے ہی ہفتے الیکشن ہیں۔ ان جیسی انتخابی منصوبہ سازی جنوبی پنجاب کے کسی سیاسی خانوادے میں نظر نہیں آ رہی حالانکہ اس خطے میں ایسے خاندان موجود ہیں جو دہائیوں سے انتخابی سیاست کے اسرار و رموز کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ 
 خانیوال میں ایک معروف سماجی شخصیت میاں جاوید نے چند ہی ماہ میں فلاحی اور عوامی خدمت کے کاموں سے اپنا انتہائی مضبوط انتخابی حلقہ بنا لیا ہے کہ بڑے بڑے جگا دری سیاستدانوں کو از خود ان سے رابطے کرنے پڑ رہے ہیں۔ خانیوال جہاں گردے کے مریضوں کے لئے محض ایک ڈائیلائیسز مشین تھی اب وہاں  میاں جاوید کی طرف سے عطیہ کی گئی جدید ترین ڈائیلائیسز مشینوں کی قطار لگی ہوئی ہے وہ فلاحی کام کرتے جا رہے ہیں اور لوگ خود بخود ان کے ساتھ جڑتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک اچھا رواج ہے اور بہت سوں کو آئندہ اس کی پیروی کرنا پڑے گی پھر وہ دن بھی انشائ￿ اللہ ضرور آئے گا جب عداوت کی سیاست خدمت کی سیاست میں بدل جائے گی اور ترقیاتی سکیموں سے کمش لینے والے فلاحی سرگرمیوں پر مجبور ہو جائیں گے

مزیدخبریں