پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت متحد رکھنے کا سنگین چیلنج  درپیش

ندیم بسرا 
سابق وزیر اعظم عمران خان ایک طرف تو جلد الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کو پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت متحد رکھنے کا سنگین چیلنج بھی درپیش ہے۔ پارٹی میں دھڑے بندی اور عہدوں کی تقسیم میں شدید اختلافات ہیں جو وفاق اور چاروں صوبوں سمیت اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کو بطور جماعت شدید نقصان ہونے کا اندیشہ ہے لیکن عمران خان ان معاملات کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ پنجاب کا کردار سیاست میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی بطور سیاسی جماعت کیا پوزیشن ہے اس امر کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا لاہور جلسہ اتنا کامیاب نہہں  رہا جس کے انتظامات کی زمہ داری سابق وزیر شفقت محمود سے لیکر آخری وقت میں سابق وفاقی وزیر علی زیدی جن کا تعلق بھی کراچی سے ہے ان کو لاہور جلسے کے انتظامات کی ذمہ داری سونپ کر عمران خان نے پنجاب کی تنظیم پر خود ہی سوالات اٹھا دئیے پی ٹی آئی کے پنجاب میں دور حکومت کے دوران بھی یہاں پر سینیٹر اعجاز چوہدری سے پنجاب کی پارٹی ذ مہ داریاں لیکر شفقت محمود کو سونپی گئی تھیں لیکن اب ان کو بھی نا اہل قرار دیا جا رہا ہے کیو نکہ اہم فیصلے عمران خان خود کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اہم وزرا میاں محمود الرشید۔میاں اسلم اقبال ،اسد کھوکھر ،مراد راس وہ وزرا ہیں جو دور اقتدار میں انتہا ئی متحرک رہے اور خوب مراعات لیتے رہے ہیں اب یہی لوگ اقتدار چھینے جانے کا ملبہ سابق وزیر اعلی عثمان بزدار پر ڈالتے دکھا ئیں دیتے ہیں۔پنجاب کا بینہ کے آخری اجلاس کے بعد جب سابق وزیر اعلی عثمان بزدار سے پروٹوکول لے لیا گیا تو چوہدری پرویز الٰہی نے میاں محمود الرشید سے کہا کہ اپنے ڈرائیور کو کہو کے عثمان بزدار کو چھوڑ آئے تو میاں محمود الرشید نے صاف انکار کرتے ہوئے عثمان بزدار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کی نااہلی کی وجہ سے پنجاب اور وفاق میں پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم کیا گیا ہے اس وجہ سے سابق وزیر اعلی عثمان بزدار اس موقع پر آبدیدہ بھی ہوگئے۔ قارئین کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بالکل ایسا ہی ہے کیو نکہ عثمان بزدار اس رویے سے دل برداشتہ ہوئے اور پی ٹی آئی پنجاب میں متحرک  ایک خاص گروپ پر کی جانے والی نوازشیں اکثر بیان کرتے ہیں کہ کیسے میاں محمود الرشید کے بھائی کو کرپشن کے الزامات کے باوجود اہم عہدوں پر نوازا جاتا رہا اور محکمہ ہائوسنگ سمیت دیگر شعبوں میں میاں محمودالرشید میاں اسلم اقبال اور مراد راس کو مراعات سہولیات و بجٹ دئیے جاتے رہے یہ وزرا سابق دور حکومت میں وزیر اعلی سے اپنے کام نکلوانے کیلئے خوشامدیوں کی طرح عثمان بزدار کے آگے ہاتھ باندھے بیٹھے رہتے تھے اور اب عثمان بزدار کو پی ٹی آئی کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جبکہ اسی دوران فرح گوگی اسکے شوہر کس طرح پنجاب کے اقتدار کو انجوائے اور کرپشن کرتے رہے ہیں۔ آج حکومت کے خاتمے کے بعد ساری  ذمہ داری عثمان بزدار پر ڈالنا قطعی درست نہیں ہے۔پنجاب میں پی ٹی آئی اراکین میں دھڑے بندی کی وجہ سے ہی حمزہ شہباز اقتدار میں آئے ہیں اور قرائن بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں پائی جانے والی مایوسی پارٹی کو مزید نقصان پہنچائے گی اور عمران خان کی جانب سے پنجاب میں اگر بروقت اقدامات کر بھی لیے گیے تو پارٹی کو نہیں بچایا جاسکے گا کیو نکہ پی ٹی آئی کے مزید درجنوں اراکین اسمبلی ن لیگ سے رابطے میں ہیں۔دوسری جانب عثمان بزدار لاہور کے خاص ذات برادری والے  گروپ کے رویے سے انتہائی نالاں ہیں نجی محفلوں میں کہتے پائے گئے ہیں ، یہ لوگ میری کرپشن کی شکایات مختلف فورمز پر کرتے نظرآتے تھے کیا حساس اداروں کے پاس میاں محمود الرشید کا ریکارڈ نہیں  کہ انھوں نے کتنی زمینوں پر قبضے کیے اپنے کرپٹ بھائی کو مجھے بلیک میل کرکے اسٹنٹ کمشنر رائیونڈ لگوایا جس کی سینکڑوں شکایات زیر التوا ہیں۔ فرح گوگی کے فرنٹ مین کے طور پر میں نہیں محمودالرشید کام کر رہے تھے وہ بارہا مجھے کہتے یہ اپنا گھر سکیم ناکام پراجیکٹ ہے خان میری وزا ر ت میں مجھے ناکام کرواکر میرا سیاسی مستقبل خراب کرنا چاہتا ہے  آخر کار فرح کی منت سماجت کرکے اپنی ہاوسنگ کی وزارت تبدیل کرواکر بلدیات حاصل کی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...