روُبرو آئے کو ئی یا آئے نہ
دل میں رہنے والا دل سے جائے نہ
دل تو ضد کرتا ہے ملنے کے لئے
کیا کریں جب کوئی ملنے آئے نہ
دوُریاں اور وہ بھی اتنی جانگسل
کاش مجھ کو اور وہ تڑپائے نہ
جانے کس طوفان کا عنوان ہوں
اشک پلکوں پر اگر ٹھہرائے نہ
آئینہ دل مکدر ہو چکا
جو نظر آتا تھا پہلے آئے نہ
آزمائش آہی جاتی ہے کبھی
آدمی کا کام ہے گبھرائے نہ
خاک میں مل جائے گا فانی وجود
اپنی ہستی پر کوئی اترائے نہ
جب گئے دنیا سے آیا ہر کوئی
جب کو آنا تھا ضیاء وہ آئے نہ
(شرافت ضیائ، اسلام آباد )