یہ شرط زیادہ ٹیکس میں ناکام اور کاروباری سر گرمیوں کے لیے نقصان دہ ہے ،صدر ایف پی سی سی آئی 


کراچی (کامرس رپورٹر) صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ وفاقی بجٹ 2022-23 اور فنانس ایکٹ 2022 میں خرید و فروخت میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی شرط کو واپس لیاجانا چاہیے کیونکہ یہ زیادہ ٹیکس پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ فلائنگ انوائسز اور جعلی دستاویزات کے استعمال کو بڑھاوا دیتی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ دنیا میں کہیں بھی خریدار سے خریداری کرتے وقت اپنا شناختی کارڈ جمع کروانے کے لیے نہیں کہا جاتا اور یہ شرط ہرطر ح کی انتظامی، ریگولیٹری، آپریشنل، کمرشل اورمعاشی پالیسیوں میں مقصدیت کے خلاف ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ شناختی کارڈ کی شرط کو متعارف کروانا معاشی تر قی کی قیمت پر محض سیاسی نعرے بازی کا حصہ تھا اور اب بھی وہی مفاد پرست ٹولہ اس کے تسلسل کے لیے پروپیگنڈہ کر رہا ہے؛ جبکہ انہیں کاروبار، صنعت اور تجارت کے زمینی حقائق کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی نے وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل کو بھی اس معاملے پر بریفنگ دی ہے کہ یہ کس طرح یہ شرط ملک میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو منفی انداز میں متاثر کر رہی ہے۔صدرایف پی سی سی آئی نے وضاحت کی کہ یہ  شر ط پاکستان میں پیداواری سر گر میوں اور مارکیٹ پر منفی اثرا ت مرتب کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ ایف پی سی سی آئی کا دورہ کرنے والے چیئرمین ایف بی آر نے سال 2021 میں اپنے دورے کے دوران اعتراف کیا تھا کہ شنا ختی کارڈ کی شرط کی وجہ سے سیلز ٹیکس کی وصولی میں کمی واقع ہوئی ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی نے مزید کہا ہے کہ زیادہ ٹیکس محصولات حاصل کرنے کا واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ اسٹیک ہولڈرز یعنی کاروباری برادری، تاجروں اور صنعتکاروں کی مشاورت سے کاروبار دوست اور معاشی ترقی کا حامل وفاقی بجٹ پیش کیا جائے۔ عرفان اقبال شیخ نے اعلیٰ ترین چیمبر کے صدر کی حیثیت سے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے تاجر برادری اور حکومت اور حکومتی ریگولیٹرز کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن