ایک شہرہے ’عالم میں انتخاب‘، نام ہے ملتان،اس کے بارے میں حضرت امیرخسروؒ سے منسوب ایک شعر ہے:
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند
ملتان ِما بہ جنت ِاعلیٰ برابر است
یہ شہراپنے بطن میں اسکندرِ یونانی سے لے کر نواب مظفرخان سدوزئی تک اوراس سے بھی ماورا زمانوں کی تاریخ چھپائے بیٹھا ہے۔ اس کے بارے میں ’گرد، گرما، گدا و گورستان ‘والا شعر آپ نے سنا ہوگا، یہ دھول، گرمی، سائلین اور قبرستان دراصل ملتان کے چارتحفے ہیں۔ اس شعرکے دوسرے مصرعے کوبدل کر جسٹس کیانی نے کچھ یوں کہا تھا:
چہار چیز از تحفۂ ملتان
آم، مخدوم، حلوہ و خرما
آم ،حلوہ اور خرما کی مٹھاس کے توہم بچپن سے رسیا ہیں، البتہ مخدوموں کی تکریم ہم سے ویسی نہیں ہوئی جیسی عام طورپر توقع کی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھی سید اعتماد حسین شاہ نے تو اس شعر کی وہ درگت بنائی کہ حسیناؤں کے ساتھ جڑا ہوا تصور ِجمال بھی آن ِواحد قعرِ مذلت میں جاگرا۔ کہتے ہیں: آپ کا شہر وہ ہوتا ہے، جہاں آپ کی جوانی گزرتی ہے ، سو ہماری زندگی کے قیمتی سال اسی شہرمیں دفن ہیں۔ بائیس سے بتیس سال کی عمرتک کا عر صہ ملتان میںگزرا، زندگی کے کیسے کیسے تجربے ہوئے، ان میںوہ گلیاں بھی تھیں جہاں ہم آنکھوں میں گلابیاں انڈیلے ٹہلا کرتے تھے۔ اسی شہرمیں میں بہت سی جگہیں ایسی بھی ملیں، جہاں کھانے پینے کے عمدہ مراکز تھے۔ محدود سی تنخوا ہ میں اندرون اور بیرون شہر کے مختلف جگہوں پر مٹرگشت کیا، پل شوالہ پر کیفے لطافت کے پائے، اوجڑی اور مغز، اندرون قدیرآباد میں تاکی والا ہوٹل، بوہرگیٹ کے اندر لالے اسلم کی لسی ، نشتر میڈیکل کالج کے سامنے آلو کے پراٹھے اور آملیٹ، حسین آگاہی کا تول کر بکنے والا بیف پلاؤ، گھنٹا گھر کی مٹن چانپ، ملتان کینٹ میں دلمیر کے پیڑے اورلال کرتی کے پسندے، محفوظ کا پان، خونی برج کی فرائی مچھلی، ایک بزرگ گول گپوں والا بھی وہاں ریڑھی لگاتا تھا، اس کے گول گپوں میں پھلوں کے قتلے بھی ہوتے تھے۔ حرم گیٹ کی عفیفہ خواتین بھی وہاں آکر گول گپے کھاتی تھیں۔ نہاری مختلف جگہوں کی اچھی تھی لیکن شاہ رکن عالم کا کھوئے والا برف کا گولا آج تک نہیں بھولا۔ ماضی کے ان اوراق کو پلٹیں تو ایک جگہ کا کھانا نہیں بھولتا، یہ ملتان کینٹ کا خورشید ہوٹل تھا، یہاں کی دال، مرغ یخنی اور ایگ پڈنگ سے ہماری عیاشی ہوجاتی تھی۔
اس ہوٹل کا ماحول بڑا صاف ستھرا اور سادہ تھا۔ ایک آواز لگتی، منے ے ے میاں! اور ایک درمیانی عمراور درمیانے قد کا فربہ سا معنک آدمی میکانکی انداز میں ’آیا جی‘ کہہ کرحاضرہوجاتا۔ منے میاں ایک بھلے مانس آدمی تھے، سنا ہے انتقال کرگئے ہیں۔ اس ہوٹل کا کھانا اور پھر کینٹ کی عید گاہ کے پاس بالی کی چائے اور بند مکھن، بالی کا ہوٹل کیا تھا ایک صنعتی یونٹ تھا، جہاں شہر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ آکر بیٹھا کرتے تھے، مختلف اقسام کے ارسطو انگلیوں میں چائے کی پیالی لیے مذہب، ادب، علم، سیاست وغیرہ پرگفتگو کرتے۔ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھتا پہلی بار وہیں دیکھا، زندگی کے موضوعات پر مباحث چھڑتے۔ چائے کی پیالی تریاق کا درجہ رکھتی تھی۔ ملتان کا تاج ہوٹل بھی ہماری یادِماضی کا حصہ ہے، چندمہربان دوستوں کے شفیق چہرے آج بھی آنکھوں کے سامنے ہیں، سناہے اس ہوٹل نے اب چائے بنانی بندکردی ہے۔ ظاہرہے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ ویسی چائے بنانے والے ہی نہیں رہے۔ انھی محفلوں میں ارشد ملتانی، اصغر علی شاہ، مبارک مجوکا، جاوید اختر بھٹی، ظفر سپل، نجم الاصغر شاہیا، ڈاکٹر محمد امین، احمدخان درانی، ممتازاطہر، مشتاق کھوکھر، محمد مختار علی اور شناور اسحاق جیسے پیاروں سے ملاقاتیں رہتیں۔
ملتان کی اس مجلسی زندگی میں جاوید اختر بھٹی وضع دار ی اوراخلاص کا عمدہ نمونہ لگے۔ بھٹی صاحب جیسے لوگ دنیامیں کم کم نظرآتے ہیں۔ انھوں نے تمام عمر پرواز میں کوتاہی لائے بغیر خاموشی کے ساتھ افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید، تاریخ اور کالم نگاری کے شعبوں میں نام پیداکیا۔ ہمیںان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ علم و ادب کے اس شوریدہ دریا میں جاوید اختربھٹی کی کشتی خاصی مضبوط ہے۔ انھوں نے اپنے علاقے کے گم شدہ علمی وادبی آثار کو منظرعام پرلاکر بے چہرگی کی بیماری میں مبتلاہونے سے بچالیا۔ میرے خیال میں ہر شہر میں ایسی ایک شخصیت کی ضرورت ہے ۔ میں ان کی تحریروں کے بارے میں کیا لکھوں کہ جہاں ادب کے نام پر محض تخلیق کار کے افسانوں کی تلخیص اورمحض تحقیق وتنقیدکا تعارف پیش کرنے کی روایت موجودہے۔ ایک ذہین افسانہ نگار کی طرح انھوں نے اصل اور مخترح کے درمیان توازن برقرار رکھا۔
بھٹی صاحب راجپوت ہیں، انھوں نے آج تک کسی شاہ کا قصیدہ نہیں لکھا۔ ان کی زندگی معرکہ آرائیوں سے عبارت ہے۔ بھٹی صاحب کاراستہ روکنے کی متعدد کوششیں ہوئیں لیکن ان کا مقام اور نکھر کر سامنے آیا اور ان کا شمار موجودہ دور کے پاکستانی اردو ادب کے چند اہم لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان کا مقصد سرکاری اعزازی تمغوں کا حصول نہیں بلکہ ایک سچی لگن ہمیشہ سے ان کی ہم رکاب ہے جو مسلسل تخلیقی کام لیتی ہے اور ان کو سربلند رکھتی ہے۔ ہمارے نقادوں نے اپنی ہی ذات کے اندر معیارات کے مقدس مینار تعمیرکر لیے ہیں، وہ مفتیانِ دین کی طرح جس کو چاہیں جائز یا ناجائز قرار دیدیں۔ میرے خیال میں بھٹی صاحب کی تحریریں ان ظاہری ضرورتوں سے ماورا ہیں۔ ان کی تحریروں کے بطن میں چھپی سچائی ان کے ہم عصروں میں کم کم دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک باکردار، وضع دار اور سنبھلے ہوئے انسان ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فن کار کی شخصیت فن پارے سے جدا ہوجائے، بھٹی صاحب ایک متوازن آدمی ہیں، ان کی عمدہ لائبریری ، مجلسی زندگی اورادب کی خدمت کاجذبہ نئے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔
جاویداختربھٹی : معدوم ہوتی مجلسی زندگی کاایک کردار
May 12, 2023