بھارت کہنے کو تو ایک سیکولر ریاست ہے مگر عملاً اس پر نسل پرست ہندو انتہا پسندوں کی حکمرانی ہے، یوں تو قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان میں بھی ہندو اکثریت نے دوسرے مذاہب کے لوگوں پر زندگی اجیرن کر رکھی تھی، ہندو اکثریت کا جابرانہ طرز عمل ہی تھا جس نے ہندو مسلم اتحاد کے داعی اور انگریزوں سے آزادی کے علم بردار اکثر مسلم رہنما?ں کو مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو گزشتہ پون صدی سے مسلسل انتہا پسند ہندو?ں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے اور مسلم کش فسادات بھارت میں معمول کی سرگرمی بن چکی ہے، موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی جسے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کرنے پر بجا طور پر گجرات کا قصاب کا خطاب دیا گیا تھا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سبب اس کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی عائد تھی، مگر یہ بھارتی ہندو?ں کی سوچ کی عکاسی ہے کہ یہ دہشت گرد آج بھارت کا وزیر اعظم اور سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے، چنانچہ اس کے اقتدار میں ہندتوا کی پرچارک آر ایس ایس جیسی بدنام زمانہ تنظیم کو کھل کھیلنے کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے جس نے ہر طرح کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے بھارت میں غیر ہندو باشندوں کو زبردستی ہندو بنانے کا سلسلہ پورے زور شور سے شروع کر رکھا ہے، مذہب تبدیل کرنا آسان کام نہیں چنانچہ اقلیتوں میں سے جو تبدیلی مذہب سے انکار کرے یا اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اسے ریاست کی سرپرستی میں ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس ضمن میں مسلمان، انتہا پسند ہندو?ں کا خصوصی نشانہ ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر اقلیتیں محفوظ ہیں، اقلیتیں تو ایک طرف ذات پات کی درجہ بندیوں میں جکڑے ہندو دھرم میں نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے شودر اور دلت جس قدر اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں اور ان سے تیسرے چوتھے درجے کے شہریوں کا جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کا کسی جمہوریت کے دعویدار مہذب ملک میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا…!!!
ہندو اکثریت کے ظلم و جبر کی تازہ شکار بھارتی ریاست منی پور میں آباد عیسائی قبائلی آبادی ہے، اس ریاست میں کئی روز سے نسلی فسادات کا سلسلہ جاری ہے اور گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس جاری ہونے کے باوجود فسادات پر قابو پانے میں بھارتی حکومت مکمل ناکام رہی ہے، بھارت میں عالمی رہنما?ں کی موجودگی کے باوجود آگ اور خون کا کھیل رک نہیں سکا۔ ریاستی حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی حامی ہندو کمیونٹی (مینی) کے قبائلی مسیحی کمیونٹی (کوکی) پر پے در پے حملے جاری ہیں، ان حملوں میں سینکڑوں گھر، گرجا گھر اور گاڑیاں جلا دی گئیں، دیہات کے دیہات شعلوں کی نذر ہو گئے، مسلم کمیونٹی پر بھی حملے کیے گئے، مزید 5 افراد ہلاک ہو گئے جس سے فسادات میں کل ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی جب کہ 80 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ تین روزہ فسادات کے بعد آخر ریاستی حکومت کو فوج کی طلبی یاد آگئی، مشتعل افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔ جمعرات کو ریاست کے دار الحکومت سمیت متعدد شہروں میں بلوائیوں کے حملے رک نہ سکے، سب سے متاثرہ علاقے ریاستی دارالحکومت امپھال، چرچند پور، بشنپور، کنگپوکی اور مورے ہیں، بی جے پی ایم ایل اے اور سابق وزیر ونگزا گن ولٹ کے گھر پر امپھال میں حملہ کیا گیا، جس پر وہ شدید زخمی ہو گئے۔ امپھال کے نواح میں واقع دو چرچ جلا دیئے گئے۔ امپھال کی گلیوں میں جا بجا مکانات اور گاڑیاں جلی نظر آ رہی ہیں، فوجیوں نے متاثرہ علاقوں سے 10 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ سوشل میڈیا پر مقامی صحافیوں کے توسط سے دی گئی معلومات کے مطابق ریاست کے تقریباً 75 فیصد چرچ جلا دیئے گئے۔ آسام رائفلز اور سی آر پی ایف کی ریپڈ ایکشن فورس کے 500 سپاہیوں کو صورتحال سنبھالنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ بی ایس ایف، انڈین آرمی اور دیگر فورسز کے اہلکار پہلے ہی کشیدہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے منی پور میں تعینات ہیں۔ موجودہ صورتحال میں سی آر پی ایف کی کل 25 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں جواب تک صورتحال سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ سی آر پی ایف کے 10 مزید دستے (تقریباً 1000 سپاہی) منی پور روانہ کر دیئے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھارتی عوام مودی سرکار کے خلاف پھٹ پڑے، صارفین نے کہا کہ منی پور جل رہا ہے جب کہ نیرو (مودی) کرناٹک میں انتخابی مہم کی بانسری بجا رہا ہے۔ صارفین کے مطابق مودی کی ہندو توا نسل کش پالیسیوں کا پورے ہندوستان میں راج ہے۔ مودی سرکار نے ہندوستان کو بھی مقبوضہ وادی کشمیر کا نقشہ بنا دیا جہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ اقوام عالم کو اس صورتحال میں جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ میانمار کی سرحد سے ملحقہ ریاست منی پور میٹی کمیونٹی پر مشتمل ہے جو زیادہ تر ہندو ہیں، چند روز قبل بی جے پی کی ریاستی حکومت نے شیڈول قبائلی لسٹ بنانے کی تجویز پیش کی جس پر عدالت نے میٹی کمیونٹی کو شیڈ ولڈ قبائلی لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیدیا، جس پر ریاست کی قبائلی کمیونٹی کوکی جو مسیحیوں پر مشتمل ہے نے احتجاج شروع کر دیا۔ کوکی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ میٹی کمیونٹی کو شیڈ ولڈ قبائلی لسٹ میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں، اس لسٹ کے لیے مستحق تو غریب قبائلی کمیونٹی ہیں جو بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے جب کہ اقلیتوں کو اپنی رسوم اور تہوار منانے کی آزادی بھی حاصل نہیں۔ حال ہی میں مسلمانوں نے عید الفطر منائی اس موقع پر بھارت کے کئی شہروں میں مسلمانوں کو پابندیوں اور ہندو انتہا پسندوں کی دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مقبوضہ کشمیر میں سالہا سال سے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد اور دیگر مقامات پر عید کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں پر مسلط طرح طرح کی پابندیوں کے پیش نظر امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے ابھی تین دن قبل مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو اس حوالے سے بلیک لسٹ کیا جائے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے بھی بار بار اس حوالے سے پابندیوں کی سفارش کر چکے ہیں مگر عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے اس ضمن میں بھارت سے متعلق مسلسل چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں جو ان کے دہرے معیارات کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری جانب بھارت کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا ہے جس کی تازہ مثال بھارتی شہر ’’گوا‘‘ میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر ہے جنہوں نے تمام آداب میزبانی اور سفارتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی اوردر اندازی کا واویلا شروع کر دیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اگرچہ اس کا جواب دیا ہے تاہم ضرورت ہے کہ خارجہ محاذ پر بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا پردہ چاک کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ موثر سفارتی مہم چلائی جائے … !!! ٭…٭…٭