ڈوبتی معیشت کو آء ایم ایف کا سہارا

فہمیدہ کوثر

تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور ڈالر کی اونچی اڑانیں اس بات کا اشارہ کررہی ہیں کہ ہماری ترجیحات باہمی محاز آرائی نہیں بلکہ اس معاشی نظام کے زمیں بوس ڈھانچے کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے معیشیت کی دوبتی سانسوں نے ہمیں ان خطرات کی طرف دھکیل دیا ہے جس سے عالمی طاقتیں فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہیں کیا پاکستان اس لئے معرض وجود میں آیا تھا  کہ ہم اپنے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملکی سالمیت کو داؤ پر لگادیں  اس پر طرہ یہ کہ جس آئی ایم ایف کے سہارے ہمیں معیشت کے ڈھانچے کو مصنوعی تنفس دینا ہے وہ ہمارا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں   ہماری ناقص حکمت عملیوں اور غلط ترجیحات نے ہمیں اس مقام پرلاکھڑاکیا ہے کہ اب نہ ہمارے پاس سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی معاشی استحکام   پاکستانمیں غربت اور استحکام کاسہرا یاتو پچھلی حکومتوں کے سرباندھا جاتا ہے یا پھر آئی ایم  ایف  کے سر لیکن اصل صورتحال  یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ منشور ہی نہیں  کہ جس پرچل کر ہم معاشی استحکام لاسکیں  معاشی پسماندگی کا خاتمہ  سیاسی پنجہ آزمائی یا طاقت کے زور سے نہیں ہوگا وگرنہ تو جنگل کا قانون بن جائے گا  بلکہ اسکے لئے افہام وتفہیم ضروری ہے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر  صرف اور صرف معاشی استحکام کیلئیے جماعتوں کے  درمیان اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا جوکہ پاکستان کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے اختلافات تو جمہوریت کاحسن ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک جب تک یہ تعمیری ہوں اور قومی مفادات کے دائرے میں  رہتے ہوئے حزب اقتدار اور حزب ااختلاف کامقصد قومی بقا ہے   جوابدہی درحقیقت ایک پراسیس ہے جو پہلے خدا کے سامنے جوابدہی سے شروع ہوتا ہے اور پھر ضمیر کے سامنے اور پھر عوام کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ جوابدہی کے خوف سے ساری ساری رات گریہ زاری میں مبتلا رھتے تھے اور یہی فرمایا کرتے تھے کہ کاش میری ماں مجھے پیدا ہی نہ کرتی وہ ریاستیں اسی وجہ سے مستحکم تھیں   جذباتی اور انتقامی ردعمل مسائل کو بڑھاتا ہے ملکی مسائل کوگہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ  پچھتر سالوں سے کوئی دوا اثرکیوں نہیں کررہی ہے شاعر تو اسکاجواب کچھ یوں دیگا کہ
 اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے ہی دوا تبدیل کرلیتے
لیکن سیاسی حوالے سے دیکھا جائے معاشی استحکام ہمارا مسئلہ رہا ہی نہیں نہ ہی  ہم نے معاشرے کی نبضوں کو ٹٹول کر مرض کو تشخیص کیا ایک مزاح نگار نے لکھا کہ ہمار گھر سے سو گز آگے جو طبیب رہتے ہیں وہ بہت باحیا ہیں  اگر کوئی خاتون ان کے پاس علاج کے لئے آتی ہے تووہ حکم دیتے ہیں کہ مریضہ کو دوسرے کمرے میں بیٹھنے کا حکم صادر کرتے ہیں اور ایک دھاگے کا سرا مریضہ کی کلائی سے بندھوا کر دوسرا سرا اپنے ہاتھ میں تھام کرمرض کا اندازہ لگالیتے ہیں  حکیم صاحب فرماتے ہین کہ ملک اور عورت دونوں  تقدس کے حامل ہوتے ہیں  شومئی قسمت ہمارے ہاتھوں میں وہ الجھے ہوئے دھاگے ہیں جن کاسرا ہم ڈھونڈنے سے قاصر ہیں  ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم  شہریوں کو یا تو اس ملک کاشہری سمجھتے ہی نہیں جن کے ٹیکسوں سے ملک کے ادارے چلتے ہیں یاپھر ہمارے اندر وہ استعداد نہیں کہ مسائل کو حل کرسکیں  جس طرح ایک حستہ حال عمارت کی ایک اینٹ چھیڑو تو ساری اینٹیں گرنے کو تیار ہوتی ہیں اسی طرح  ملک کے اندر پھیلے مسائل میں سے کسی ایک کو چھیڑو تو دو مسئلے اور نکل آتے ہیں  بھارت روانڈا ایتھوپیا  نائیجیریا انگولا کمبوڈیا  صومالیہ  اور پاکستان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ  یاتو کسی ہمسایہ ریاست سے برسرپیکار ہیں  یا ان ممالک میں خانہ جنگی  کی سی کیفیت ہے یا ان کے حکمران شہریوں کے حقوق غصب کئے بیٹھے ہیں  انصاف کاحصول اور کرپشن کی روک تھام کوجواز بناکر ان غریب ممالک کی حکومتیں لوگوں کے بنیادی حقوق  اور سیاسی آزایاں سلب کرنے میں ثانی نہیں رکھتیں اور تاثر یہ دیتی ہیں کہ ہم تو بہت مخلص ہیں اقتصادی مشکلات کی وجہ عالمی طاقتیں ہیں اور ان ممالک میں ہردس سال بعد باوردی حکمران  کو روک تھام کی اتنی ضرورت ہوتی ہیکہ انہیں باامرمجبوری آئین  بھی معطل کرنا پڑتا ہے لیکن بدعنوانی میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے دوسری طرف حکومت  جن کمزور عوام کی خاطر قرض اٹھاتی ہے وہ مزید بد حال  ہوتے جاتے ہیں

ای پیپر دی نیشن