ڈوبتی معیشت کو آء ایم ایف کا سہارا

May 12, 2023

فہمیدہ کوثر

فہمیدہ کوثر

تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور ڈالر کی اونچی اڑانیں اس بات کا اشارہ کررہی ہیں کہ ہماری ترجیحات باہمی محاز آرائی نہیں بلکہ اس معاشی نظام کے زمیں بوس ڈھانچے کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے معیشیت کی دوبتی سانسوں نے ہمیں ان خطرات کی طرف دھکیل دیا ہے جس سے عالمی طاقتیں فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہیں کیا پاکستان اس لئے معرض وجود میں آیا تھا  کہ ہم اپنے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملکی سالمیت کو داؤ پر لگادیں  اس پر طرہ یہ کہ جس آئی ایم ایف کے سہارے ہمیں معیشت کے ڈھانچے کو مصنوعی تنفس دینا ہے وہ ہمارا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں   ہماری ناقص حکمت عملیوں اور غلط ترجیحات نے ہمیں اس مقام پرلاکھڑاکیا ہے کہ اب نہ ہمارے پاس سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی معاشی استحکام   پاکستانمیں غربت اور استحکام کاسہرا یاتو پچھلی حکومتوں کے سرباندھا جاتا ہے یا پھر آئی ایم  ایف  کے سر لیکن اصل صورتحال  یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ منشور ہی نہیں  کہ جس پرچل کر ہم معاشی استحکام لاسکیں  معاشی پسماندگی کا خاتمہ  سیاسی پنجہ آزمائی یا طاقت کے زور سے نہیں ہوگا وگرنہ تو جنگل کا قانون بن جائے گا  بلکہ اسکے لئے افہام وتفہیم ضروری ہے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر  صرف اور صرف معاشی استحکام کیلئیے جماعتوں کے  درمیان اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا جوکہ پاکستان کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے اختلافات تو جمہوریت کاحسن ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک جب تک یہ تعمیری ہوں اور قومی مفادات کے دائرے میں  رہتے ہوئے حزب اقتدار اور حزب ااختلاف کامقصد قومی بقا ہے   جوابدہی درحقیقت ایک پراسیس ہے جو پہلے خدا کے سامنے جوابدہی سے شروع ہوتا ہے اور پھر ضمیر کے سامنے اور پھر عوام کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ جوابدہی کے خوف سے ساری ساری رات گریہ زاری میں مبتلا رھتے تھے اور یہی فرمایا کرتے تھے کہ کاش میری ماں مجھے پیدا ہی نہ کرتی وہ ریاستیں اسی وجہ سے مستحکم تھیں   جذباتی اور انتقامی ردعمل مسائل کو بڑھاتا ہے ملکی مسائل کوگہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ  پچھتر سالوں سے کوئی دوا اثرکیوں نہیں کررہی ہے شاعر تو اسکاجواب کچھ یوں دیگا کہ
 اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے ہی دوا تبدیل کرلیتے
لیکن سیاسی حوالے سے دیکھا جائے معاشی استحکام ہمارا مسئلہ رہا ہی نہیں نہ ہی  ہم نے معاشرے کی نبضوں کو ٹٹول کر مرض کو تشخیص کیا ایک مزاح نگار نے لکھا کہ ہمار گھر سے سو گز آگے جو طبیب رہتے ہیں وہ بہت باحیا ہیں  اگر کوئی خاتون ان کے پاس علاج کے لئے آتی ہے تووہ حکم دیتے ہیں کہ مریضہ کو دوسرے کمرے میں بیٹھنے کا حکم صادر کرتے ہیں اور ایک دھاگے کا سرا مریضہ کی کلائی سے بندھوا کر دوسرا سرا اپنے ہاتھ میں تھام کرمرض کا اندازہ لگالیتے ہیں  حکیم صاحب فرماتے ہین کہ ملک اور عورت دونوں  تقدس کے حامل ہوتے ہیں  شومئی قسمت ہمارے ہاتھوں میں وہ الجھے ہوئے دھاگے ہیں جن کاسرا ہم ڈھونڈنے سے قاصر ہیں  ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم  شہریوں کو یا تو اس ملک کاشہری سمجھتے ہی نہیں جن کے ٹیکسوں سے ملک کے ادارے چلتے ہیں یاپھر ہمارے اندر وہ استعداد نہیں کہ مسائل کو حل کرسکیں  جس طرح ایک حستہ حال عمارت کی ایک اینٹ چھیڑو تو ساری اینٹیں گرنے کو تیار ہوتی ہیں اسی طرح  ملک کے اندر پھیلے مسائل میں سے کسی ایک کو چھیڑو تو دو مسئلے اور نکل آتے ہیں  بھارت روانڈا ایتھوپیا  نائیجیریا انگولا کمبوڈیا  صومالیہ  اور پاکستان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ  یاتو کسی ہمسایہ ریاست سے برسرپیکار ہیں  یا ان ممالک میں خانہ جنگی  کی سی کیفیت ہے یا ان کے حکمران شہریوں کے حقوق غصب کئے بیٹھے ہیں  انصاف کاحصول اور کرپشن کی روک تھام کوجواز بناکر ان غریب ممالک کی حکومتیں لوگوں کے بنیادی حقوق  اور سیاسی آزایاں سلب کرنے میں ثانی نہیں رکھتیں اور تاثر یہ دیتی ہیں کہ ہم تو بہت مخلص ہیں اقتصادی مشکلات کی وجہ عالمی طاقتیں ہیں اور ان ممالک میں ہردس سال بعد باوردی حکمران  کو روک تھام کی اتنی ضرورت ہوتی ہیکہ انہیں باامرمجبوری آئین  بھی معطل کرنا پڑتا ہے لیکن بدعنوانی میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے دوسری طرف حکومت  جن کمزور عوام کی خاطر قرض اٹھاتی ہے وہ مزید بد حال  ہوتے جاتے ہیں

مزیدخبریں