باسمہ تعالی
وارث علم نبیؐ محافظ دین و شریعت ، سرچشمہ علم و حکمت
مشرق کو عظمتیں اور مغرب کو روشنیاں بخشنے والی ہستی
’سپر مین ان اسلام‘
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام(یوم شہادت 25شوال )
خصوصی تحریر:
سرپرست اعلی سپریم شیعہ علماء بورڈ و سربراہ تحریک نفاذفقہ جعفریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا حامد علی شاہ موسوی
مدینۃ العلم حضرت محمد مصطفیؐکی تعلیمات سے پھوٹنے والے علوم ظاہری وباطنی نے 8ویں صدی کے آغاز پر پوری دنیامیں علم و حکمت کی روشنیاں بکھیر دیں۔ا سلامی تاریخ کے اس سنہرے دور کے آغاز کے بارے میں اھل سنت کے بزرگ عالم میر علی ہندی رقم کرتے ہیں کہ اس زمانے میں علم کی ترقی نے سب کو کشتہ بحث و جستجو بنادیا تھا اور فلسفیانہ گفتگو ہرجگہ رائج ہوچکی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ اس فکری تحریک کی رہبری اس مرکز علمی کے ہاتھ میں تھی جو مدینہ میں پھل پھول رہا تھا اور اس مرکز کا سربراہ علی ابن ابی طالب کا پوتا تھا جس کا نام جعفر صادق تھا۔ وہ ایک بڑے مفکر اور سرگرم محقق تھے اور اس زمانے کے علوم پر عبور رکھتے تھے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام میں فلسفے کے مدارس قائم کئے۔ ان کے درس میں صرف وہ لوگ شرکت نہیں کرتے تھے جو بعد میں فقہی مکاتب کے امام کہلائے بلکہ فلاسفہ، فلسفہ کے طلبہ بھی دور دراز سے آکر ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔
امام جعفر صادق خانوادہ رسالت کی وہ عظیم ہستی ہیں جن کانام علم و حکمت کا استعارہ بن گیا جنہوں نے سیرت مصطفویؐکو اس انداز میں دہرایاکہ اپنے جد نبی کریمؐ کی طرح صادق کا لقب پایا آپ نے علوم نبوی و مرتضوی کی بنیاد پر ایسی علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی جس پر دنیا آج بھی ناز کر رہی ہے ۔
سٹراسبرگ فرانس میں مغربی محققین نے مسلمانوںکی علمی و سائنسی خدمات کا کھوج لگانا شروع کیا تو اہلبیت رسولؐ کی عالی مرتبت ہستی امام جعفر صادق علیہ السلام کو ’سپر مین ان اسلام‘ کہنے پر مجبور ہو گئے فرانس برطانیہ جرمنی بلجیم سمیت مختلف یورپی ممالک سے تعلق رکھنے واے پروفیسر حضرات آج تک آپ کی تعلیمات ، عظمت کے معترف ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے 17ربیع الاول80ہجری میں مدینہ النبی ؐ میںحضرت امام محمد باقر العلوم کی آغوش میں آنکھ کھولیں۔آپ عبادت گزاروں کی زینت امام زین العابدین کے پوتے تھے ۔آپ کی والدہ بزگوار فاطمہ (کنیت ام فروہ) بنت قاسم بنت محمد بن حضرت ابو بکرؓ تھیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے علم و حکمت کے دریا اس انداز میں بہائے کہ دنیا کو نبی کریم محمد مصطفی ؐکا دور یاد آگیاآپ نے مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو دنیا کی عظیم جامعات میں تبدیل کردیا جہاں تشنگان علم و حکمت کھنچے چلے آتے تھے آپ نے لا تعدادطلاب کی کی تربیت کرکے تاریک زمانوں کو علوم محمدی سے روشنیوں سے سیراب کردیا۔ ان جامعات کے مختلف مدارس میں ہزاروںافراد علوم فنون اسلامی کے گونا گوں شعبہ جات میں مصروف درس و تدریس نظر آتے تھے یہ طلاب فقہ اور معرف علوم اسلامی کے بارے میں امام جعفر صادق کے دروس و بیانات‘فرمودات یاد کرتے اور انکے بارے میں تحقیق اور بحث و تمحیص کرتے ۔مورخین آپ سے روایت کرتے اور دانشور کتابی صورت میں آپ کے فرمودات جمع کرتے تھے حتیٰ کہ حفاظ اور محدثین جب کچھ بیان کرتے تو حوالہ دیتے کہ امام جعفر صادق نے یہ ارشاد فرمایاہے۔مورخین اس بات پر متفق ہیں امام جعفر صادق ؑآپ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کسی اْستاد کے سامنے زانوئے اَدب تہہ کیا۔ آپ علم مصطفوی و مرتضوی کے وارث تھے جو نسل درنسل آپ کے قلب اطہر میں منتقل ہوا۔
امام جعفر صادق کی درسگاہ میں فقہ کے علاوہ ریاضی فلکیات فزکس کیمسٹری سمیت تمام جدید علوم کی تعلیمات دی جاتیں اسی حوزہ علمیہ سے جہاں قدیم علوم کا احیاء ہوا وہاں جدید علوم کی بھی بنیاد رکھی گئی۔مسلمانوں میں نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں۔احادیث و معرف دین و شریعت میں امام جعفر صادق کے وضع کردہ چار سو اصول ہی کتب اربع کا منبع و مدرک ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں امام موسی کاظم ،ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابربن حیان، موسی کاظم علیہ السلام، یحی بن سعید انصاری، یزید بن عبداللہ، ابو حنیفہ، ابان بن تغلب،، ابن جریح، معاویہ بن عمار، ابن اسحاق، سفیان، شبعہ، مالک، اسماعیل بن جعفر، وھب بن خالد، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن بلال، سفیان بن عینیہ، حسن بن صالح، حسن بن عیاش، زھیر بن محمد، حفص بن غیاث، زید بن حسن، انماطی، سعید بن سفیان اسلمی، عبدالہ بن میمون، عبدالعزیز بن عمران زھری، عبدالعزیز درآوری، عبدالوہاب ثقفی، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن میمون زعفرانی، مسلم زنجی، یحی قطان، ابو عاصم نبیل سمیت ہزاروں شامل ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔الجبرا کے بانی ابو موسیٰ الخوارزمی نے بھی بالواسطہ امام جعفر صادق ؑ کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا۔ اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہؒ نے تقریبا'' دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا‘‘علامہ شبلی نعمانی نے امام ابوحنیفہ پر لکھی گئی سیرۃ النعمان میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ’’حضرت امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد ہی سہی لیکن امام جعفر صادق کے شاگر دتھے۔‘‘
امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ جب امام جعفر صادق کے سامنے رسول اللہ ؐکا نام مبارک لیاجاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور زرد ہوجاتا تھا میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تھے یا پھر روزہ سے ہوتے تھے۔
امام مالک ؒنے مزید فرمایا کہ’’ کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی جعفر ابن محمد سے بھی افضل ہوسکتا ہے۔‘‘
عالم اہلسنت ملا عبد الرحمن جامی شواہد النبوۃ میں رقم طراز ہیں کہ منصوردوانیقی کے ایک درباری کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ اسے پریشان دیکھاسبب پوچھا تو کہنے لگا جب تک میں امام جعفر صادق ؑ کا کام تمام نہ کرلوں آرام سے نہ بیٹھوں گا۔اس نے جلاد کو بلایا اور کہا کہ میں امام جعفر صادق کو بلواتا ہوں جب امام جعفر صادق ؑ آئیں اور میں اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں تو تم انہیں قتل کردینا۔درباری بیان کرتا ہے کہ جب منصور نے امام کو بلوایا تو میں ان کے ساتھ ہو لیا وہ زیر لب کچھ ورد فرما رہے تھے۔میں نے دیکھا کہ اچانک منصور کے محل میں ارتعاش و زلزلہ پید اہو گیا ہے اور وہ اپنے محل سے ایسے نکلا جیسے کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے منصور کا حلیہ عجیب تھا وہ لرزہ براندام،برہنہ سر اور برہنہ پا امام جعفر صادق ؑ کے استقبال کے لئے بڑھنے پر مجبور ہو گیا اور آپ کے بازو کو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایااور کہنے لگا اے فرزند رسول ؐآپ کیسے تشریف لائے ہیں؟تو آپ نے فرمایاتو نے بلایا اور میں آگیا۔منصور کہنے لگا کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیں۔آپ نے فرمایا مجھے بجز اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں نہ بلایا کرو۔
اس کے بعد امام جعفر صادق ؑ تشریف لے گئے اور منصور ایسا سویا کہ اگلے روز دن چڑھے بیدار ہوا مجھے بلایا اور کہا کہ میں نے جعفر ابن محمد کو قتل کے ارادے سے بلایا تھا جیسے ہی وہ دربار میں داخل ہوئے تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا میرے محل پروہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا کہ مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم نے جعفر صادق ؑ کو کوئی گزند پہنچائی تو تجھے تیرے محل سمیت دفن کردوں گا۔(شواہد النبوۃ ؒ)
امام جعفرصادق کے اقوال ہر دور میں مسلمانوں کیلئے مشعل راہ رہے ہیں امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ ''امر بالمعروف برائی کو دور کرتا ہے ،صدقہ پروردگار عالم کے غضب کوخاموش کردیتا ہے، صلہ ٔ رحم سے عمر میں اضافہ اور فقر و تنگدستی دور ہو تی ہے اور'' لا حول ولا قوۃ الا باللہ'' کہناجنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ''
'خداوند عالم جسے معصیت کی ذلت سے اپنی اطاعت کی عزت کی طرف لے جاتا ہے تو اسے بغیر مال کے غنی ، بغیر انیس و مو نس کے مانوس ،اوربغیر قوم و قبیلہ کے عزت عطا کر تا ہے ''۔
''تم لوگوں میں کفر کی حد سے وہ شخص زیادہ قریب ہے جواپنے مو من بھا ئی کی لغزش کو اس لئے بچا کر رکھے تاکہ کسی دن اسے ذلیل کر سکے ''۔
''بیشک گناہ ،رزق سے محروم کر دیتا ہے ''۔
:''ہر مرض کی دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے ''۔
میں اپنے ان برادران کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں جو مجھے میرے عیوب کی نشان دہی کرائیں ''
''اپنی طرف سے اپنے بھا ئی کو بْرا بھلا کہنے کی ابتدا نہ کرو''۔
''حرام کما ئی کا اثراولاد میں ظاہر ہو تا ہے''۔
:''جس کی نیت صحیح ہو تی ہے اللہ اس کا رزق زیادہ کرتا ہے''
''جس شخص سے تمھیں اپنے جھٹلائے جانے کا خوف ہو اس سے گفتگو نہ کرو، جس سے تمھیں انکار کا خوف ہو اس سے سوال نہ کرو ، اس سے مطمئن نہ ہوجس سے تمھیں دھوکہ کا خوف ہو ''۔
امام جعفر صادق کی شہادت 25شوال اوربعض روایات میں 15شوال148ہجری کو منصورعباس خلیفہ کے دورمیں واقع ہوئی جو ظلم و بربریت کا دور تھا۔جہاں کلمہ حق کہنا مشکل تھا اور حکمران حق کے بجائے فقط اپنے جائز ناجائز اقدامات کی توصیف سننے کے خواہشمند تھے اور شریعت مصطفی میں من مانی تبدیلیاں کرکے دین کو اقتدار کی ڈھال بنانا چاہتے تھے ۔ امام جعفر صادق ؑ نے جام شہادت نوش کرنا قبول کرلیا مگردین میں تحریفات کرنے والوں کے سامنے سر نہ جھکایا۔آپ کی قبراطہر جنت البقیع میں اپنی جدہ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزھرا ؐ اور اپنے اجداد امام حسن ؑ‘امام زین العابدینؑ اورامام باقر ؑکے پہلومیں واقع ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و فکری تحریک صرف مسلمانوں ہی نہیں پوری انسانیت کا ورثہ ہے اسی تحریک نے مشرق کو عروج عطا کیا تو مغرب کو تاریکیوں سے نکالا آج امت مسلمہ سا ئنس و ٹیکنالوجی میں پسماندگی کے سبب اغیار کی دست نگر بنی ہو ئی ہے ا اگر مسلمان دنیا میں مقام حا صل کرنا چاہتے ہیں تو انہیںعلم سے ٹوٹا رشتہ دوبارہ جوڑنا ہوگا، جنت البقیع جنت المعلی میں امام جعفر صادق کی قبر اطہر سمیت مشاہیر اسلام کے آثار کی عظمت رفتہ بحال کرنا ہوگا،اہل مغرب کی پیروی کے بجائے خاک مدینہ و نجف سے رشتہ استوار کرنا ہوگا۔