’’جو گزر گئی وہ حیات ہے‘‘

May 12, 2024

بلقیس ریاض

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔انجانی سی آواز کانوں میں گونجی آپ بلقیس ریاض ہیں۔
’’جی‘‘… ’’میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں‘‘۔
کون ہیں؟
جی میںشہناز نقوی ایک لکھاری ہوں۔۔۔ملتان سے لاہور شفٹ ہوئی ہوں میری بڑی خواہش تھی کہ میں آپ سے ملوں۔۔۔کیا میں آپ کے گھر آسکتی ہوں؟۔۔۔۔کچھ اتنی محبت سے اصرار کیا کہ مجھے انکار نہ کرنا پڑا۔ دوسرے دن گھر پہنچ گئی۔۔۔۔اس کا جوان بیٹا بھی ہمراہ تھا۔
خوش لباس خوش گفتار۔۔۔نہ صرف چہرے پر محبت ٹپک رہی تھی بلکہ اس کی آنکھوں میں کئی کہانیاں تھی جو مجھ سے شیئر کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔لکھنے لکھانے کا شوق اسے بچپن سے ہی تھا۔ ملتان سے ہمارے ملنے ملانے والے جج صاحب کی فیملیوں سے آشنائی تھی۔۔۔اور ان کے بارے مجھے اور میرے میاں کو بتا رہی تھی۔ اس وقت میرا بیٹا رضا رومی بھی وہاں موجود تھا۔۔۔۔ ملتان کے جج صاحبان کی باتیںبتاتے ہوئے یوں گھل مل گئی جیسے برسوں سے ہماری جان پہچان ہو۔ میں نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ’’نیل گگن تلے ‘‘ تھی اور کہنے لگی کہ یہ میں آپ کیلئے لے کر آئی ہوں۔۔۔امید ہے آپ کو پسند آئے گی۔ پھر سب کے ساتھ مل کر اس نے سیلفی بھی بنائی۔
وہ مسکراہٹیں،محبتیں نچھاور کرتے ہوئے چلی گئی۔۔۔پہلی ملاقات میں میں نے دیکھا اس کی آنکھوں میں محبت ہی محبت تھی۔۔۔۔اس کے بعد کافی محفلوں میں اس کے ساتھ ملنا ملانا رہا۔
شہناز نقوی بیک وقت ایک شاعرہ اوربہترین نثرنگار ہیں۔ کئی شعری مجموعے ایسے ہیں جن سے وہ بھرپور داد لے چکی ہیں۔ وہ افسانہ نگار اور بہترین کھلاڑی بھی تھیں۔ نیشنل ہاکی ٹیم میں کھیل چکی ہے۔ یوں کہا جائے کہ ہر فن مولا ہے۔ ملتا ن کی محبت سے سرشار ہے۔
جب نئی کتاب ’’جو گزر گئی وہ حیات ہے‘‘ چھپ گئی تو ایک کتاب اس نے مجھے بھی دی۔
کتاب میں اپنے پیش لفظ میں لکھتی ہیں۔ میں نے پہلے باب میں سکرین پر دکھائی جانے والی ’’ڈاکو مینٹری‘‘کی صورت مسلسل الفاظ انداز میں پیش کیا ہے۔ زندگی کے سنگ رشتوں کے ساتھ لگائے قہقہوں اور آنسوئوں کو دیگر رشتوں ،رومانوں کے اطوار کو بیان کیا ہے۔دوسرا باب منفرد ثقافتی اطوار اور ذاتی نظریات کو بیان کیا ہے۔۔۔۔تاکہ زندگی کی تصویر مکمل ہو سکے۔آب بیتی کے ساتھ جگ بیتی بھی لازم ہے۔ میرے نزدیک ان دونوں کا رشتہ جسم و جان جیسا ہے۔
شہناز نقوی بطور شاعرہ و افسانہ نگار ہے۔ ملتان کی لکھاریوں میں اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ ملتان سے لاہور شفٹ تو ہو گئی مگر ملتان کی یادیں وہ کبھی بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔وہ یادیں اس کے دل کے اندر نقش ہو چکی تھیں۔ ان یادوں کو صفحہ قرطاس میں لاتے ہوئے۔۔۔ہر بات بچپن سے لے کر جوانی تک ۔ایف اے کے بعد شادی ہوئی تو شادی کے بعد تعلیم جاری رکھی بی اے کیا ایم اے کیا اور ساتھ ساتھ لکھنا لکھانا بھی جاری رکھا۔ گھرداری بھی سنبھالی۔۔۔۔ایک عورت کی اتنی زیادہ خوبیاں اور کیا ہوسکتی ہیں۔ ۔۔۔ملتان میں جب اس کی رہائیش تھی وہاں کے تمام واقعات بڑی خوبصورتی سے قلم بند کئے ہیں۔ اس طرح کی تحریر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اتنی خوبصورتی کے ساتھ اپنی تحریر صفحہ قرطاس میں لائی ہے۔۔۔۔کہ جس نے ملتان نہیں دیکھا تو دیکھنے کی تمنا ضرور کرے۔ 
گا۔ جیسے لاہور کیلئے ایک خاص جملہ ہے۔۔۔۔جو پنجابی کی کہاوت ہے۔۔۔’’جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ہی نئیں‘‘۔۔۔۔قاری جب یہ کتاب’’جو گزر گئی وہ حیات ہے‘‘پڑھے گا تو اس کے دل کے اندر تمنا جا گے گی کہ میں ملتان ضرور جائوں۔۔۔۔ کیونکہ اسے ملتان جگمگاتا ہوا روشن دکھائی دے گا۔ اس کے ماضی کا تذکرہ ایک پر مسرت یاد ہے جو اس کے دل کی گہرائیوں میں سمائی ہوئی ہے۔۔۔۔ہمیشہ زندہ رہے گی۔
کتاب پڑھ کر حیران تھی کہ اس کی ماضی کی یادیں تروتازہ اس کے ذہن میں اتنی محفوظ ہیں۔ سچ ہے جہاں جس کی پرورش ہوئی ہو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔۔۔۔اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بڑی سچائی کے ساتھ اپنی یاداشتوں کو پیش کیا ہے۔۔۔۔حالانکہ ملتان کی لکھاریوں میں یہ پہلی خاتون ہے جس نے آپ بیتی لکھی ہے۔ اس کتاب میں اپنی زندگی کے جذبات کو بیان کیا ہے۔
بقول عامر رضا کے بچپن میں ریڈیو کے استعمال کی کہانی تحریر کی ہے۔۔۔وہ دلچسپ ہے۔
نعیم فاطمہ کہتی ہیں کہ یاداشتوں میں ہمیںتمام ادبی ذائقے مل جاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ بوریت نہیں پیدا کرتے کیونکہ اس میں کردار نگاری مل جاتی ہے۔ خاکہ نگاری بھی موجود ہے اور مختلف زمانوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ شہناز نقوی مٹھاس سے گوندھی ہوئی ہستی ہے…۔اتنی میٹھی ہے کہ دل یہ ماننے کیلئے تیار ہو جاتا ہے کہ ملتان والے بڑے میٹھے ہوتے ہیں۔
کہانی سنانا یا کہانی لکھنا چاہے آپ بیتی یا جگ بیتی کیوں نہ ہو یقینا تخلیقی عمل کی مختلف جہات ہیںاور عورت ازل سے تخلیقی عمل کا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے۔ شہناز نقوی کسی بھی لمحے کو احاطہ تحریر لانے کا ہنر اور تحریر تخلیق کے روپ میں ڈھالنے کا سلیقہ بخوبی جانتی ہے۔ شہناز ملتان کی ماضی کی کہانیاں نہایت سہولت کے ساتھ چن کر سطروں میں گوندھ لیتی ہے پھر داستان کو کہانی کار کی طرح مشاہدات،تجربات اور خیالات سے قاری میں ایک انہماک ۔۔۔ایک دلچسپی برقرار رکھتی ہے۔ شہناز نقوی کو بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ اپنے اس ہنر سے خوب استفادہ کرتی ہے۔ خالی کینوس میں رنگ بھرنے کا سلیقہ اسے ودیعت ہے۔ اس کی آپ بیتی میں ایک رچائو ہے۔ سطر در سطر میں ایک سبھائو ہے۔۔۔اور خیالات کا الائو ہے۔۔۔۔اور یہی وہ بنیادی لوازمات ہیں۔ جو کسی بھی آپ بیتی کی تشکیل و تعمیر کیلئے ضروری تصور کئے جاتے ہیں۔
آخر میں کہوں گی کہ کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اس کا دوسرا رخ بھی دیکھ لینا چاہیے۔ ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد ہوتا ہے۔ اس حقیقت اور سچائی کا نام اس کا شوہر صاحب ہے۔ جنہوں نے نہ صرف آزادانہ ادبی محفلوں کی اجازت دی بلکہ اس کے لکھنے لکھانے میں بھی رکاوٹ بھی نہیں بنے اور اللہ کرے جو یادیں اس کے ذہن میں پنہاں ہیںوہ دوسرے ایڈیشن میں مکمل ہو جائیں۔ میری دعا ہے کہ یونہی ہنستی مسکراتی رہے۔ اور ہر ایک کو اپنا بناتی رہے۔۔۔اور میٹھی ہی رہے۔

مزیدخبریں