ریاستی معاملات دور اندیشی اور فہم پرستی سے فی ا لفورحل کرنا ہی ریاست کے وجود کو بر قرار رکھنے کی ضمانت ہے ، جس ریاست میں معاملات کو مصلحتوں کی وجہ سے وقت پر ان کے منطقی انجام تک نہ پہنچایا جائے تو معاملات سانحات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ، حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن ریاستی ادارے ریاست کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے مستقل طور پر متحرک رہنے چاہئیں، جس کا فقدان نظر آنا ریاست کے وجود کے لئے خطرناک ہے۔
9 مئی کے ملک دشمنی پر مبنی واقعات کی مالا جپتے آج ایک سال ہو گیا ہے، لیکن نتیجہ صفر بٹہ صفر ہی ہے ملک میں پسِ پردہ منظم سازش کی ابتدا ئی جھلک 2014 ء میں دھرنے کی صورت میں منظر عام پر آئی، اس دھرنے کے شرکاء کے کھانے پینے کے اخراجات جڑانوالہ کے رہائشی خان بہادر ڈوگر نے کئے تھے ، انکے مطابق جب انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھائی اس وقت دھرنے کے شرکاء 35 سے 40 ہزار تھے ، جن کے کھانے پینے کا خرچہ 20لاکھ روپے روزانہ کی بنیاد پر کیا جا تا تھا لیکن بعد میں عوام کی تعداد کم ہونے سے خرچہ بھی کم ہو گیا تھا ، اس کے علاوہ سائونڈ سسٹم پر آصف نذر ( ڈی جے بٹ) کے مطابق 14 کروڑ روپیہ کا خرچہ ہوا تھا، 25 کروڑ 20 لاکھ صرف اور صرف تفریحی خرچ تھا ،اس کے علاوہ جھنڈوں وغیرہ کا 14کروڑ کا خرچہ اور جلسہ گاہ میں آنے والی گاڑیوں کاپٹرول، ہیلی کاپٹر کا خرچہ، جنریٹر ز، انٹر نیٹ،کنٹینرز کا عملہ اور اس میں سوشل میڈیا سے منسلک افراد ،یہ سارے خرچے اور دھرنے کے اصل اخراجات اربوں کی حد تک بنتے ہیں ، اور ان اخراجات کو کہاں سے پورا کیا گیا ؟ یہ سب مالا میں پرویا نہیں گیا۔
19اگست 2014 ء کو پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا گیا ، 30 ، اگست کے دن دھرنے کے شرکاء اور پولیس میں جھڑپ اس وقت ہوئی، جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی ،ریاست کے ان اداروں پر حملے کو مصلحتوں کی نذرکر دیا گیا تو 2017 ء میں فیض آباد دھرنے کا ایک انوکھا کھیل کھیلا گیا ، مقصد تھا کہ عوام کی منتخب حکومت کو ختم کیا جائے اور ملک میں انتشار برپا کر کے سلیکٹڈ افراد کو حکومت کے ایوانوں میں لا کر مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں ، ان مذموم مقاصد کی بیخ کنی نہیں کی گئی اور 9 مئی کا سانحہ رونما ہوا۔
9 مئی جیسا دہشت گردانہ واقعہ کسی بھی ملک کی سلامتی اور اسکی بقاء کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے ،دہشت گردوں کی ایسی للکار کا منہ توڑ جواب ہاتھ کے ہاتھ دینا ہی ریاست کو محفوظ بنا تا ہے ، یا مروجہ قوانین۔ لہٰذا ریاست کے با مقصد اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سخت سے سخت اقدامات کرنے کا پابند ہونا ہو گا ، 9 مئی کے پسِ پردہ محرکات پر تاخیرسے عمل درآمد ہونے کی وجہ سے ملکی ادارے متنازع بنے، اور نو مئی کے اصل کردار ملک میں اس مفروضے پر دندناتے پھر رہے ہیں کہ سیکورٹی اداروں نے کھلی چھوٹ کیوں دی ،جبکہ ملکی ادارے ان بلوائیوں کو پرکھ رہے تھے کہ یہ کس حد تک جاتے ہیں ، کوئی بھی محبِ وطن اس حد تک نہیں جا سکتا جیسا کہ 9 مئی کے بلوائیوں نے کیا، باقاعدہ منظم حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے جناح ہائوس لاہور میں توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگا کر ہر خوشہء مکاں کو خاکستر کیا گیا ، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے باقاعدہ ان بلوائیوں کو تصاویر کی مدد سے آگاہ کیا گیا تھا ، جیسا انہیں ٹریننگ دی گئی تھی ، انہوں نے ویسا ہی عملی مظاہرہ کیا۔
8فروری 2024 ء کو متنازع بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ 9 مئی کے سانحے پر 8 فروری کو فوقیت دیکر 9 مئی کے شرمناک واقعات پر پردہ پوشی کرنے والے ملکی اداروں کو للکار رہے ہیں ، خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پو ر کی فلمی ولن کی طرح بڑھکیں اداروں پر اثر انداز ہونے اور انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہیں۔ ان کی بڑھکیں نہ سیاسی اور نہ ہی ادب کے زمرے میں مستحسنہ ہیں ، پی ٹی آئی اور اس کے قائدین نے کبھی بھی سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی بیان بازی کی، الزام ، بہتان، لانگ مارچ، دھرنا اور دھمکیاں ہی دیں ،اسکے علاوہ ملکی مسائل ، غربت ،مہنگائی ،معیشت اور خارجہ امور پر کبھی بھی بات کرنے کی جسارت نہیں کی۔
9 مئی کا سانحہ بھولنے اور پسِ پشت ڈالنے والا واقعہ نہیں جب کہ تحریک انصاف سمیت چند حلقوں کا خیال تھا کہ ادارے یا حکومت 9 مئی کے واقعہ کو وقت گزرنے کے بعد بھول جائیں گے، اور اس میں شدت نہیں رہے گی ، لیکن یہ پی ٹی آئی اور اس کے حواریوں کی خام خیالی تھی کیونکہ عسکری اور حکومتی ایوانوں میں اس پیپ زدہ گھائو کا آپریشن لازمی قرار دیا جا رہا ہے ، صوبائی اسمبلیوں میں قرادادیں منظور کی گئی ہیں ،معصوم بننے والے اصل ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ محب وطن شہریوں کے لئے اطمنان کا باعث ہے۔
دلوں میں حبِ وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا ہے چمن کو اگر تو ایک رہو
وطن کی پاسبانی جان و ایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں