گزشتہ ہفتے ممتاز مصنف، دانش ور اور صحافی اور روزنامہ مرکز کے سابق چیف ایڈیٹر جناب جبار مرزا اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے تو قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم کی معیت میں روزنامہ جرأت، تجارت، دی بزنس کے دفتر میں بھی جلوہ افروز ہوئے۔ ان کی کئی کتابیں میری نظر سے گزر چکی ہیں لیکن انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ’’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں ‘‘ کا ایک نسخہ اس ملاقات میں عنایت فرمایا۔ یہ کتاب اس لحاظ سے نہایت منفرد اہمیت کی حامل ہے کہ انہیں اپنی مرحومہ اہلیہ کی علالت کے دوران جن ہسپتالوں، ڈاکٹروں، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک معالجوں اور تعویز گنڈے والے عاملوں اور خواتین سے پالا پڑا ۔ ان سارے تلخ تجربات اور مشاہدات کو اس کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔ میں نے کتاب ملنے کے بعد پہلی ہی شب ایک سو صفحات پڑھے اور میں حیرت اور افسوس کے سمندر میں ڈوب گیا کہ اس ملک کی ایک نادر روزگار شخصیت کو اگر ان مصائب و مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے تو پاکستان کے ایک عام شہری کا کیا حال ہوگا جس کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ بڑے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں تک رسائی جناب جبار مرزا اور ان کی اہلیہ جن مراحل سے گزرے اور علاج معالجہ کے بے پناہ اخراجات کی خاطر انہوں نے جس طرح اپنے وسائل مجتمع کئے یہ پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
میں چونکہ خود بھی ان آزمائشوں سے گزر چکا ہوں جن کا سامنا مجھے اپنی اہلیہ مرحومہ شمیم اختر اور اپنی بیٹی نورین عارف کے علاج کے دوران کرنا پڑا۔ ان دونوں کو یکے بعد دیگرے چھاتی کے سرطان نے آلیا اور دونوں ہی ہمیں چھوڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اب میں تلخ یادوں کو بیان کرکے قارئین کو بے مزہ نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ قارئین کو جناب جبار مرزا کی اس تصنیف کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ ہمیں وطن عزیز میں صحت کی سہولتوں کی حالت زار کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوسکے اور ہم جہاں کہیں بھی ہیں اور معاشرے کے جس دائرے میں بھی مصروف عمل ہیں وہاں صحت کے نظام کی ابتری کو بہتری میں تبدیل کرنے اور کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
ہمارا معاشرہ اچھے اور بُرے لوگوں کا مجموعہ ہے اس بنا پر یہ کہناتو درست نہیں ہوگا کہ سب کے سب حرص اور طمع کے مرض یا وباء میں مبتلا ہو چکے ہیں یقینا اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو تمام تر مشکلات کے باوجود اس باوقار پیشہ کی اعلیٰ اقدار کے امین ہیں اور شاید انہی کی وجہ سے ہم اس زوال کا شکار ہونے سے بچے ہوئے ہیں جو اس طرح کے معاشروں کا مقدر بن جاتا ہے۔
جناب جبار مرزا کی زیر نظر کتاب چار سوصفحات پر مشتمل ہے جس میں متعدد صفحات ان کی مرحومہ اہلیہ شائستہ جبار رانی کے ساتھ خاندانی تصاویر کے لئے وقف کئے گئے ہیں۔ کتاب نفیس کاغذ پر طبع ہوئی ہے اور اس میں جناب ساجد حسن ملک، جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، راجہ محمد ظفر الحق سیکرٹری جنرل موتمر عالم اسلامی، سینیٹر عرفان صدیقی، جناب فتح محمد ملک، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جناب سلطان سکندر اور جناب منور راجپوت کی گراں قدر آراء بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب شہریار پبلی کیشنز اسلام آباد پوش آرکیڈ،G-9 مرکز اسلام آباد،موبائل نمبر 0300-5586192 نے نہایت عقیدت و ادارت سے شائع کی ہے اور شائستہ مرحومہ کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے۔ یہ کتاب میاں بیوی کے ایک دوسرے سے لازوال پیار کی نہایت عمدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ جناب جبار مرزا خوش قسمت ہیں کہ انہیں شائستہ کی رفاقت نصیب ہوئی او شائستہ کا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں ہوگا جنہیں بعداز مرگ اس طرح کا خراج عقیدت میسر آیا جیسا جناب جبار مرزا نے اپنی انگلیاں خون میں ڈبو کر سپرد قلم کر دیا ہے اور جو شائستہ رانی کو تا ابد زندہ رکھے گا۔
٭…٭…٭