13 سال بعد پاکستان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ گیا
پاکستان کا 13 سال بعد اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں ہاکی جو قومی کھیل ہے کے ساتھ جس طرح سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا گیا۔ اس کے بعد ہاکی کے کھیل کا زوال سب نے دیکھا۔ ہم جو کبھی دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتے تھے ہمارا نام ہی عالمی فہرست سے خارج ہو گیا۔ دھڑے بندی اور پی ایچ ایف میں سیاست نے کھیل کا بیڑہ غرق کر دیا رہی سہی کسر فنڈز کی عدم دستیابی اور دستیاب وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والوں نے پوری کر دی۔ اب اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستا ن نے اپنے پول میں 3 میچ جیتے۔ دو برابر رہے۔ یوں 10 پوائنٹس کے ساتھ وہ سرفہرست رہا۔ کھلاڑیوں کی محنت رنگ لائی امید ہے اور دعا بھی کہ فائنل میں بھی پاکستان کامیاب و کامران ہو۔ اب حکومت اور محکمہ کھیل کو چاہیے کہ وہ بھی آنکھیں کھولے اور کرکٹ کی طرح ہاکی پر بھی وہی توجہ دے جس کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں مگر وہ جوہری والی آنکھ بند پڑی ہے جو پتھروں میں سے ہیرے تلاش کر لیتی ہے۔ اس طرح ان نوجوان کھلاڑیوں کو تلاش کر کے ان کو تراش کر ہیرا بنانے کی ذمہ داری محکمہ کھیل کی ہے خاص طور پر ہاکی فیڈریشن باہمی چپقلش اور سیاسی گروہ بازی چھوڑ کر ہاکی کی ترقی کے لیے کام کرے اور عالمی سطح پر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے تاکہ کرکٹ کی طرح ہاکی کے میدانوں میں بھی ہمارا نام گونجے اور ہمارا قومی کھیل ہماری پہچان بنے۔
٭٭٭٭
کچے کے ڈاکوئوں نے مغوی بچے کی ویڈیو وائرل کر دی
زنجیروں میں جکڑے اس مظلوم بچے کو ان بدبخت ظالم ڈاکوئوں نے درخت سے لٹکایا ہوا ہے اور وہ رو رو کر جان چھڑانے کا کہہ رہا ہے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر اچھے اچھوں کا دل پگھل رہا ہے۔ مگر ان ظالموں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ ان کچے کے ڈاکوئوں کو اور ان کے سرپرستوں کو اب چاہے بکتر بند گاڑیوں تلے کچلا جائے یا بلڈوزروں کے تلے۔ ان پر رحم کرنا اب گناہ ہو گا۔ پہلے ہی وہاں بگٹی قبائل کے مسلح جوان اپنے ایک سردار کے قتل پر مشتعل ہو کر پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ڈاکوئوں کے خلاف مورچہ زن ہیں جس کے بعد ڈاکوئوں کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں اور اب وہ اس قتل سے خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ اب یہ پٹھان بچے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بہت سے پشتون قبائل بھی ڈاکوئوں کے خلاف براہ راست ایکشن لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ بھی میدان میں آ گئے تو پھر سمجھ لیں کچے میں کیا ہو گا۔ اب تو ان شہری اور دیہی علاقوں میں ان ڈاکوئوں کا یہی علاج رہ گیا ہے کہ عوام خود ہی ان کا بندوبست کریں اور پولیس کے آنے تک ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ کراچی اور کئی شہروں میں اور دیہات میں اب لوگ خود ان سے نمٹنے لگے ہیں۔
گرچہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہو گی مگر جب انتظامیہ اور پولیس جرائم پیشہ افراد پر قابو پانے میں ناکام رہیں تو پھر عوام کو ازخود ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ اگر اب بھی کچے کے ان بے لگام ڈاکوئوں کے انسانیت سوز مظالم پر سخت ایکشن نہ ہوا ان کا قلع قمع نہ کیا گیا تو ریاست کی رٹ جو چاہے گا اسلحہ کے زور پر چیلنج کرتا پھرے گا۔
امید ہے اس بچے کی فریاد کا بھرپور اثر ہو گا اور کوئی ان شرپسندوں سے معصوم شہریوں کو خاص طور پر سندھ کی اقلیتی برادری کو بچائے جو ان ڈاکوئوں کے خوف سے علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
٭٭٭٭
گجرات کے بعد جڑانوالہ میں بھی خواجہ سرائوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی پٹائی
خصوصی رعایت ملنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اب خواجہ سرا برادری اس کا ناجائز فائدہ اٹھائے، ویسے بھی اب تو اچھے خاصے لڑکے بھی خواجہ سرائوں کا روپ دھار کر ناچنے گانے کا دھندا کرتے ہیں اور دیگر معاشرتی برائیوں کا حصہ بنتے ہیں، خود خواجہ سرا بھی اس بات سے واقف ہیں مگر ان منہ زور عناصر کے آگے بے بس ہیں۔ پہلے یہ خاموشی سے کسی علاقے میں رہتے تھے کبھی کوئی شکایت نہیں آتی تھی۔ اب تو جہاں رہتے ہیں وہاں کے باقی لوگوں کو ان سے شکایات ہوتی ہیں۔ ساز و آواز کا بے سرا ملاپ فحش گانے کسی بھی شریف علاقے میں رہنے والوں کو پریشان کرتے ہیں۔ اوباش افراد کا آنا جانا بھی محلے پر برے اثرات ڈالتا ہے۔ اس سے نوجوان خراب ہوتے ہیں اور غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ منشیات کا استعمال بھی اب ان لوگوں میں عام ہو چکا ہے۔ جرائم پیشہ افراد ان کو ڈرا دھمکا کر ان کے اڈوں کو ٹھکانہ بناتے ہیں۔ اب گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں ایسا ہی ہوا جب محلہ داروں نے ان کے رویئے کی پولیس سے شکایت کی ، دو عدد پولیس اہلکار پوچھ گچھ کے لیے آئے تو بجائے ان کا تالیاں بجا کر ٹھمکے لگا کر سواگت کیا جاتا ، ناز و ادا سے ان کو بہلایا جاتا تاکہ ان کے دل موم ہوں، اْلٹا ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا، انہیں پکڑ کمرے میں بند کر کے متعدد خواجہ سرائوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی، کسی نے مکے مارے ، کسی نے ٹھڈے ، کسی نے تیز نوکیلے ناخنوں سے حملہ کیا۔ شور شرابے پر کسی نے ایلیٹ فورس کو اطلاع دی تو اس کے اہلکاروں نے آ کر ان مغوی مضروب پولیس والوں کو ان کے چنگل سے چھڑایا۔ اب 40 خواجہ سرا و دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج ہے۔ کہیں یہاں بھی گجرات کی طرح خواجہ سرائوں کی بھاری نفری اس تھانے پر دھاوا نہ بول دے جہاں پرچہ کٹا ہے۔
٭٭٭٭
ہم کیوں معافی مانگیں ، ہم سے معافی مانگی جائے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کا جلسے سے خطاب
اب یہ خدا جانے علی امین گنڈا پور کس ترنگ میں آ کر بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز 9 مئی کے موقع پر جب پورا ملک اس یوم سیاہ کی مذمت کر رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے اپنی علیحدہ منڈلی سجائے بیٹھے تھے۔ ڈی آئی خان میں اپنے آبائی علاقے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جوش میں آ کر انہوں نے کہا کہ ہم کیوں معافی مانگیں ، ہم سے معافی مانگی جائے۔ اب بھلا ان سے پوچھا جائے کہ ان سے کس بات کی معافی مانگی جائے۔ غلط کام انہوں نے کیا اور کروایا معافی وہ مانگیں مگر وہ الْٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والے محاورے پر عمل پیرا نظر آ رہے ہیں اور غلط کام کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی پر ان کو گرفتار کرنے والوں کو ہی موردالزام ٹھہرا کر انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ ان قانون شکن عناصر سے معافی مانگیں۔ یہ عجب چوری اور منہ زوری والا معاملہ ہے۔ ملک دشمن عناصر سے ملک کے محافظوں کو کہا جا رہا ہے معافی مانگیں۔ دوسری طرف قانون کے سرحدوں کے محافظ اس بدترین سانحہ کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کے حق میں عوام کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگر ریاست ان غنڈہ عناصر اور مسلح جتھوں سے خوفزدہ ہونے لگی تو ریاست کے تمام معاملات ٹھپ ہو کر رہ جائیں۔ یہ عجب لوگ ہیں ایک طرف انہی اداروں سے تعاون طلب کر رہے ہیں مدد مانگ رہے ہیں جن کو معافی مانگنے کا کہہ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے جن کے پائوں پکڑے جا رہے ہیں انہی کو دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے اس وقت پی ٹی آئی کے حامی بھی پریشان ہیں کہ کیا کیا جائے۔ ملک اور ملکی اداروں کیخلاف زبان درازی اور ان کے خلاف عوام کو بھڑکانا سنگین جرم ہے۔ اب یہ لوگ سانحہ 9 مئی پر مٹی ڈالنا چاہتے ہیں ، اپنی جان چھڑانے کے لیے عجیب و غریب تاویلات پیش کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔جو چوری اور سینہ زوری ہے۔مگر وہ نہیں مانتے۔
٭٭٭٭