اقوام متحدہ میں آزاد فلسطینی ریاست کیلئے قرارداد کی منظوریکشمیر و فلسطین کے مسائل کا حل ہی عالمی امن و استحکام کی ضمانت ہے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو آزاد اور خودمختار ریاست قرار دینے اور اسے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بنانے کی قرارداد گزشتہ روز بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد متحدہ عرب امارات (یواے ای) کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس کے حق میں اقوام متحدہ کے رکن 143 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ سمیت 9 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ قرارداد کی بھاری اکثریت کے ساتھ منظوری پر فلسطینی مبصر ریاض منصور نے اپنے ستائشی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کیخلاف یہ قرارداد تاریخی عمل ہے اور ہم فلسطینی مشکلات کے باوجود زندہ ہیں اور ہمارا پرچم بلند ہے۔ اماراتی سفیر نے اس موقع پر کہا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کا حق حاصل ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک روسی مندوب کے بقول اسرائیل کی طرح فلسطین کو بھی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت ملنی چاہیے۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت کرکے فلسطینیوں کے حقوق سے چشم پوشی کی جانب گامزن ہے۔ 
دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفر جیلاد ایرڈن نے نمائندہ عالمی فورم پر فلسطین کے حق میں قرارداد منظور ہونے پر ہزیمت اور شرمندگی کے خوف میں جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اقوام متحدہ کے چارٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست قرار دینے سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ سے قبل اسرائیلی سفیر تقریر کیلئے آئے تو اپنے ساتھ پیپر شریڈر بھی لے کر آئے اور ہائوس سے مخاطب ہوئے کہا کہ آپ فلسطین کو مکمل رکینت دینے کے حق میں ووٹ دیں گے تو دراصل آپ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے یواین چارٹر کے صفحات پیپر شریڈر میں ڈال دیئے۔ یہ طرفہ تماشا اور اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے کہ جس وقت اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد پر بحث جاری تھی‘ عین اس وقت بھی اسرائیلی فوجیں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا وحشت و بربریت کے ساتھ قتل عام جاری رکھے ہوئے تھیں اور رفح کے مغرب میں اسرائیلی بمباری سے نتیجے میں چار فلسطینی شہید اور 16 زخمی ہو چکے تھے جس کے بعد عراقی ملیشیا نے اسرائیل کے نیواتم اڈے پر ڈرون حملہ کیا جس کے نتیجہ میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے۔ غزہ میں اسرائیلی ننگ انساینت  بربریت کا سلسلہ گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ہے جس میں اب تک خواتین اور بچوں سمیت 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی شدید زخمی حالت میں آج بھی بے یارومددگار پڑے ہیں اور مستقل اپاہجی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور خواتین بیوائیں ہو چکی ہیں۔ اس اسرائیلی وحشت و بربریت نے فلسطینیوں کے خاندانوں کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیئے ہیں۔ کوئی ہسپتال‘ درسگاہ اور کوئی بازار‘ مارکیٹ صحیح سلامت نہیں رہنے دی۔ اس وقت پوری غزہ پٹی عملاً فلسطینیوں کا قبرستان بن چکی ہے جبکہ امریکی معاونت و آشیرباد سے اسرائیلی فوج آج باقیماندہ فلسطینیوں کی تکہ بوٹی کرنے میں مصروف ہے جس پر اقوام عالم کی جانب سے پڑنے والا کوئی دبائو بھی اثر پذیر نہیں ہو رہا۔ حد تو یہ ہے کہ آج پورا مغرب اور یورپ بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم رکوانے کیلئے سڑکوں پر ہے۔ انکے منتخب ایوانوں‘ مذہبی عبارت گاہوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلیاں نکالی اور قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں مگر اس عالمی احتجاج پر نہ امریکہ ٹس سے مس ہوتا ہے اور نہ اسرائیل کے ظالم ہاتھ عملاً روکنے کیلئے مسلم دنیا کی طرف سے بھی کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا جاتا نظر آتا ہے۔ امریکہ جنگ بندی کیلئے یواین سلامتی کونسل میں اب تک پیش کی گئی ہر قرارداد ویٹو کر چکا ہے جبکہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر تجویز کا جواب فلسطینیوں کا مزید قتل عام کرکے دیتا ہے۔ مسلم دنیا میں سے صرف ایران نے اسرائیلی بربریت کے ردعمل میں اسکی فوجی تنصیبات پر میزائل اور راکٹ حملے کئے جو درحقیقت ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب تھا جبکہ دوسری مسلم دنیا کی جانب سے وسائل ہونے کے باوجود اب تک محض مذمتی بیانات اور قراردادوں پر ہی اکتفا کیا گیا ہے اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھی اسرائیلی مظالم کیخلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گاہے بگاہے مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور مختلف سیاسی‘ دینی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ 
گزشتہ روز اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی اس عالمی فورم پر اسرائیلی مظالم اور اسکے غیرقانونی و غیرانسانی اقدامات کی مذمت کی اور باور کرایا کہ پاکستان نے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کیلئے اسکے مستقل ارکان متفق نہیں ہیں۔ 
اس صورتحال میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطین کی آزاد و خودمختار حیثیت تسلیم کرانے کیلئے جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے معاملہ میں یقیناً خوشگوار اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ اسکی بنیاد پر اب دیرینہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے بھی یقیناً اقوام متحدہ پر دبائو آئیگا۔ اس نمائندہ عالمی فورم پر تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت کیلئے 1948ء میں قراردادیں منظور کرکے بھارت اور برطانیہ کے پیدا کردہ ان مسائل کے حل کا راستہ دکھا دیا گیا تھا جبکہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولا بھی دے دیا۔ اسکے باوجود فلسطینی سرزمین پر برطانیہ کی جانب سے جبراً تشکیل دی گئی ریاست اسرائیل کو توسیع دینے کے امریکی‘ برطانوی عزائم برقرار رہے اور انہی کی سرپرستی میں اسرائیل نے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے جنونی منصوبے پر کام شروع کیا۔ وہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح ہمارے خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کاسلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے جو کشمیریوں کی حمایت پر پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے اور اسکے خلاف دہشت گردی سمیت اپنی سازشوں کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ امریکی سرپرستی میں اسرائیل اور بھارت کے جاری توسیع پسندانہ عزائم ہی اس پورے کرۂ ارض کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں جبکہ امریکی سرپرستی کے نتیجہ میں علاقائی اور عالمی امن کیلئے اقوام متحدہ کی کوششیں اکارت جا رہی ہیں اور وہ لیگ آف دی نیشنز کی طرح قلطعی غیرموثر ہو کر اپنی بے عملی کا ماتم کرتا نظر آتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ آزاد فلسطینی ریاست اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اپنی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے تو کسی بھی ملک کے توسیع پسندانہ عزائم علاقائی اور عالمی امن کو تاراج کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آج یہی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی آزمائش ہے۔

ای پیپر دی نیشن