10 مئی 2024ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے غیر معمولی اجلاس میں 143 ممالک نے فلسطین کی مستقل رکنیت کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت کی۔ 9 ممالک قرارداد کے حق میں نہیں تھے 25 اراکین کی غیر حاضری نے ان کے’’ مہذب کردار‘‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو پژیرائی ملی جسے دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب نے قرارداد اور اسکی حمایت کو وقت کی ضرورت قرار دیا ۔ فلسطینی سفیر ریاض منصور نے صدر محمود عباس اور مسلم دنیا کا مشترکہ موقف کا اعادہ کیا کہ فلسطًین کی آزادی اور امن کے لیے ہر سطح پر جدوجہد جاری رہے گی۔ 10 مئی کے اجلاس کے میں 34 ممالک کی منافقت اور جانبداری کو دنیا بھر کے امن پسند اور آزادی پسند طبقے خصوصاً نوجوان جس انداز سے دیکھ رہے ہیں اس کا اندازہ عالمی امن کے ٹھیکیداروں کو نہیں ہے، اسی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی سفیر نے اقوام متحدہ کا چارٹر ٹکڑے ٹکڑے کیا، وہ غرورکے پہلے آسمان پر کھڑے ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے لیے اقوام متحدہ اور اس کا چارٹر کوئی معنی نہیں رکھتا!! اسرائیلی سفیر یاد رکھیں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی وہ امریکہ جو ہر حال میں اسرائیل کا حامی اور ترجمان تھا اسی امریکہ میں نوجوان اور طلباء کمیونٹی فلسطینوں کے حق میں اوراپنے حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔امریکی یونیوسٹوں سے انسانی حقوق کے تحفظ کی آواز کو دبانے کے لیے اب امریکی صدر جوزف بائیڈن اوراسرائیلی وزیراعظم نیتن باہو کیا کریں گے؟ احسان دانش یاد آگئے
آجاؤ گے اک روز جو حالات کی زد میں
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
ذرا ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو جنگ عظیم دوم سے قبل اسرائیل کا نام ونشان نظر نہیں آئے گا، یہودی مقدس سرزمین پر آباد ہوئے اور پھر سامراج کی سرپرستی اور چیرہ دستی کے سبب فلسطین پر قابض ہوتے گئے۔ آج یہ حالت ہے کہ فلسطین کی زمین اہل فلسطین پر تنگ کر دی گئی۔ یہ بھی یاد رکھیں قدرت کا اپنا قانون ہے جب انسان اور معاشرے انصاف دینے میں ناکام ہو جائیں تو آسمان والا انصاف کا سورج طلوع کرتا ہے۔امام علیؓ کا فرمان ہے ’’ ظلم کی حکومت تو چل سکتی ہے نا انصافی کی نہیں‘‘ وقت آگیا ہے کہ 57 مسلمان ممالک کے حکمران 2 ارب مسلمانوں کی آواز اور قوت بنیں ۔ تمام مسلمان آزادی ‘ خودمختاری اور امت کی سلامتی کے لیے یک زبان ہونے کا درس اور مطالبہ کررہے ہیں، مسلم قیادت کو مسلمانوں کی صدا سن کر اس پر لبیک کہنا چاہیے
ایک ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
1099 میں پوپ اربن دوم کی قیادت میں عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے ذریعے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا, یوں تقریباً 88سال تک یہ ارض مقدس ان کے زیرِ تسلط رہی ۔ 1187 میں مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور یوں یہاں تقریباً سات سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ۔سرزمین فلسطین میں یہود ونصاریٰ نے گریٹر اسرائیل کے صہیونی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہاں یہودی آباد کاری کا سلسلہ نہایت ہی تیزی سے جاری و ساری رکھا۔1170میں بیت المقدس میں صرف ایک یہودی تھا1175 میں ان کی تعداد بڑھ کر 150ہو گئی۔1918 میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 55000 ہو گئی1922 میں یہ تعداد بڑھ کر 82000ہو گئی ۔1925 میں مزید 61000 یہودی مختلف ممالک سے یہاں لا کر بسائے گئے ۔ 1936 میں بیرون ممالک سے آ کر یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ابتداء میں یہودیوں نے جرمن حکومت سے معاملہ کرنا چاہا تھا کیونکہ اس وقت جرمنی میں یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا اس وقت امریکہ میں ہے ۔ڈاکٹر وائز مین یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا ۔ برطانوی پالیسی کی دستاویزات کی جلد سوم میں لارڈ بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ موجود ہیں:’’ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجود باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، صہیونیت ہمارے لئے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین پر اس وقت آباد ہیں۔برطانیہ اور فرانس نے یہودی منصوبہ میں ایسا کام کیا جیسا کہ وہ آزاد ملک نہیں ہیں بلکہ صرف یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شْماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب 660641، عیسائی 71464 اور یہودی 82790 تھے ، فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سریربرٹ سیمیویل یہودی تھا۔جنگ عظیم دوم کے زمانہ میں معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا ، ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی بہت زیادہ فلسطین میں داخل ہونے لگے ۔ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری میں اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی ممالک نے سہولت کاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہیں مالی مدد فراہم کی۔ بھاری رقوم کا لالچ دے کر فلسطینی مسلمانوں سے ان کی زمینیں خریدیں۔
1947 میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا ?۔ اس قرارداد کے حق میں 33ووٹ اور اس کے خلاف 13ووٹ تھے، دس ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، امریکہ نے دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائیبریا سے تین ووٹ زبردستی حاصل کئے۔ فلسطین کی تقسیم کی جو تجویز زبردستی منظور کرائی گئی اس کی رو سے فلسطین کا 55فیصد رقبہ 33فیصد یہودیوں اور 45فیصد رقبہ 67فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ 14/مئی 1948 کو عین اس وقت جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی ، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے اس کو تسلیم کر لیا ۔یہودی منصوبے کا تیسرا مرحلہ جون 1967 کی جنگ میں بیت المقدس اور پورے باقی ماندہ فلسطین اور سرحد شام کی بالائی پہاڑیوں پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے۔اس عرصہ میں امریکہ نے اسرائیل کو ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی مالی مدد فراہم کی۔ مغربی جرمنی سے اس کو بیاسی کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا تاوان دلوایا گیا۔ دنیا بھر کے یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کے لئے دو ارب ڈالر سے زیادہ چندہ فراہم کیا۔ نومبر 1947سے 1957 تک اقوام متحدہ کے اٹھائیس ریزولیوشن اسرائیل نے اقوام متحدہ کے منہ پر مارے۔جون 1967 کی جنگ کے بعد جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا ، اس وقت اسرائیل کے وزیر اعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ اگر اقوام متحدہ کے 122 اراکین میں سے 121بھی فیصلہ دے دیں تو تنہا اسرائیل کے حق میں اس کا صرف اپنا ہی ووٹ رہ جائے تو پھر بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے۔ فلسطین میں یہودیوں نے اپنے قدم جمانے کے بعد نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ مقامات مقدسہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ۔ اس میں بلاوجہ اور غیر ضروری توڑ پھوڑ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا ۔ 21/اگست 1969 میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگادی ۔ مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ شہید ہوا ۔ حضرت سلطان نور الدین زنگی کا تیار کروایا ہوا تاریخی منبر بھی اسی میں نذر آتش ہوا تھا ۔اسرائیل کی پارلیمنٹ پر نمایاں لکھا ہوا ہے:اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔" یہودی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں جو تفصیل دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر مزید قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر،پورا ،اردن،شام ، لبنان ، عراق کا بڑا حصہ،ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک سرزمین حجاز کا بالائی علاقہ شامل ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے مکمل رکنیت ’’خوش آئند پیش قدمی‘‘
May 12, 2024