اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانانِ ہند کو علامہ محمد اقبالؒ کی صورت اےک دےدہ ور عطا فرما کر ان پر بہت بڑا احسان فرماےا تھا۔ 1857ءکی جنگ آزادی مےں ناکامی سے مسلمان دل شکستہ تھے۔ ذہن ماےوسےوں کی اتھاہ گہرائےوں مےں ٹامک ٹوئےاں ماررہے تھے۔ انگرےزوں کی غلامی اور ہندوﺅں کے تسلط سے نجات کی کوئی راہ سجھائی نہ دےتی تھی۔ ان ناگفتہ بہ حالات مےں اےک مردِ دروےش حضرت نور محمدؒ کے گھر علامہ محمد اقبالؒ پےدا ہوئے جنہوں نے اپنی الہامی شاعری سے نےم مردہ مسلمانوں کو حےات نو سے سرشار کردےا‘ انہےں ان کے شاندار ماضی اور آباو اجداد کی داستان ہائے شجاعت ےاد دلا کر غلامی کی زنجےرےںتوڑ دےنے کی ترغےب دی۔ علامہ محمد اقبالؒ کے احسانات دو چند ہےں: اُنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے لئے اےک الگ اور آزاد مملکت کا خاکہ پےش کےا بلکہ ان کے لئے اےک نجات دہندہ کی بھی نشاندہی کردی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نجات دہندہ کو اس امر پر بھی آمادہ کےا کہ وہ انگلستان سے واپس آکر قےادت سے محروم ہندوستانی مسلمانوں کی قےادت کرےں۔ مسلمان قوم کے لئے علامہ محمد اقبالؒ کی انہی خدمات کی بازگشت الحمراءہال نمبر 1مےں ےومِ اقبالؒ کی تقرےب مےں سنائی دی جس کا اہتمام نظرےہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحرےک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کےا تھا۔
تقرےب مےں کارکنانِ تحرےک پاکستان‘ خواتےن و حضرات اور نوجوانوں کی کثےر تعداد نے شرکت کی۔ تقرےب کی صدارت آبروئے صحافت جناب مجےد نظامی نے کی جبکہ مہمان خاص وزےراعلیٰ پنجاب و رہنما پاکستان مسلم لےگ مےاں محمد شہباز شرےف تھے۔ وزےراعلیٰ نے رواےتی جوش وجذبے سے ذرا ہٹ کر بڑے متےن انداز مےں خطاب کےا۔ وزےراعلیٰ کی تقرےر کا محور و مرکز علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظرےات کے مطابق وطن عزےز کی تعمےر و ترقی تھا۔ اُنہوں نے سوال کےا کہ آج اقبالؒ کے پاکستان کی کےا حےثےت ہے اور وہ اقوام عالم مےں کہاں کھڑا ہے؟ اُن کا کہنا تھا کہ وہ تو موجودہ پاکستان کو اقبالؒ کا پاکستان کہنے سے قاصر ہےں۔ اقبالؒ نے تو ہمےں خودی کا درس دےا تھا مگر ہم نے اس سبق کو فراموش کردےا جس کے نتےجے مےں آج ہمارے اےک ہاتھ مےں اےٹمی طاقت ہے اور دوسرے ہاتھ مےں کشکول کی صورت ذلت و رسوائی ہے۔ ہم موجودہ پاکستان کو کس طرح اقبالؒ کا پاکستان قرار دے سکتے ہےں جبکہ ےہاں لوٹ کھسوٹ کا اےسا بازار گرم کےا گےا ہے جس نے گزشتہ تمام بازاروں کو شرمندہ کردےا ہے۔ اسلام آباد مےں براجمان زربابا اور چالےس چور کسی کو بھی نہےں بخش رہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے آفاقی پےغام مےں جس منزل کی نشاندہی کی تھی‘ وہ منزل اب اےک سراب کی صورت اختےار کرچکی ہے۔ غلط پالےسےوں کے باعث اب دو طرح کے پاکستان بن چکے ہےں: اےک طرف محرومی ہے تو دوسری طرف خوشحالی ہے۔ اےک جانب غربت ہے تو دوسری جانب دولت کی رےل پےل ہے۔ اےک طرف تعلےم کی روشنی ہے تو دوسری طرف جہالت نے ڈےرے ڈالے ہوئے ہےں۔ ےہ طبقاتی کش مکش وسائل کی بندر بانٹ‘ ےہ ناانصافےاں.... ےہ سب وہ کچھ نہےں ہے جس کا درس ہمےں اقبالؒ نے دےا تھا۔ مےں اےک عرصے سے اہل وطن کو خونی انقلاب سے خبردار کررہا ہوں لےکن اب ےہ لمحہ بہت قرےب آن پہنچا ہے۔ مےں نے وطن عزےز کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ ہر طرف سے انقلاب‘ انقلاب ہی کی آوازےں سنائی دےتی ہےںاور انقلاب کی ےہ بازگشت‘ تبدےلی کی ےہ چاپ پوٹھوہار کی بلندےوں سے بحےرہ¿ عرب تک اور چولستان کے صحراﺅں سے لے کر بلوچستان کے رےگزاروں تک ےکساں طور پر سنائی دے رہی ہے۔ غربت و افلاس کے شکار افراد کا اےک جم غفےر ہے جو انقلاب اور بغاوت کے سےلاب کی صورت اختےار کرتاجارہا ہے۔ اگر اصلاح احوال پر توجہ نہ دی گئی تو ےہ سےلاب وسےع و عرےض اور آراستہ و پےراستہ محلات‘ زرو جواہر کے ڈھےروں‘ چمکتی دمکتی گاڑےوں‘ زرق برق ملبوسات اور لوٹ مار سے جمع کی ہوئی دولت کو خس و خاشاک کی مانند بہالے جائے گا۔ موجودہ نظام ملےامےٹ ہونے کو ہے۔(جاری ہے)