بینظیر بھٹو کو یاد رکھنے کی سچی سیاست

نوائے وقت میں بینظیر انکم سپورٹ کی چیئرپرسن اور وفاقی وزیر فرزانہ راجہ نے ”یوم اقبال پر قوم کیلئے تحفہ“ کے نام سے ایک شاندار کالم لکھا ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کیلئے تشکر کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کو فکری اساس فراہم کی جو آگے چل کر حصول پاکستان کا ذریعہ بنی۔ انہوں نے پاکستان کے محروم طبقات کیلئے معاشی ترقی کی کوششوں کو اقبال کے فکری رابطے کے ساتھ جوڑا۔ اور یہ بھی کہا کہ ان کوششوں میں بینظیر انکم سپورٹ کو ایک جداگانہ حیثیت اور اہمیت حاصل ہے۔ اقبال کے خواب کی تعبیر پانے اور صحیح معنوں میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کہیں بھی کوئی اچھا کام ہو رہا ہے تو اس کی تعریف کی جائے اور تعریف کرنا کبھی کبھی تنقید کرنے سے مشکل ہو جاتا ہے۔ خوشامد اور تعریف میں فرق ہے۔ جھوٹی تعریف خوشامد ہے۔
صدر زرداری کیلئے کبھی کبھی اختلافی بات لکھتا ہوں تو لوگ مجھے کہتے ہیں کہ جب وہ قید تھے تو تم نے ان کے حق میں بہت بات کی تھی۔ میں آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہوں۔ تم مقدمات کا فیصلہ کرو۔ ورنہ انہیں جیل سے نکالو۔ ہمارا عدالتی نظام بہت سی بدنظمیوں کا سبب ہے۔ این آر او بھی عدالتی تاخیر کا نتیجہ ہے۔ اور یہ تاخیر بذات خود بے انصافی ہے۔ میں اب بھی صدر زرداری کو ایوان صدر کا قیدی سمجھتا ہوں۔ قیدی اور قائد کے فرق کو جاننا بہت ضروری ہے۔
مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ مسلسل ساڑھے چار سال کی قتل و غارت کراچی میں جاری ہے اور خبر آتی ہے کہ صدر زرداری نے نوٹس لے لیا ہے اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ کراچی میں امن و امان کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ اس طرح کے نوٹس رحمان ملک لے لے کے بھی اب تک تنگ نہیں آئے۔ کراچی الطاف حسین کا شہر بھی ہے اور وہ گورنری کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے باوجود حکومت سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ شہر میں امن و امان بحال کیا جائے۔ اس بنیاد پر کبھی حکومت سے اتحاد چھوڑنے کی بات نہیں کی گئی۔ جس بات پر حکومت کے اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ وہ کبھی عوام کو پتہ نہیں چلی۔ صرف صدر زرداری اور الطاف حسین کو پتہ ہوتا ہے۔ شاید کچھ رحمان ملک کو بھی پتہ ہو۔
مگر یہ تصویر مجھے پسند آئی جس میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برا¶ن ایک بچی کو وسیلہ¿ تعلیم کے حوالے سے کوئی سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔ ساتھ میں فرزانہ راجہ بھی پیار سے بچی کو دیکھ رہی ہیں۔ صدر زرداری اس بچی کے سر پر دست شفقت رکھے ہوئے ہیں۔ وہ قوم کے سر پر کب دست شفقت پھیریں گے۔ قوم ایک بے چارگی بے حسی غربت کی ذلت اور مسائل کی اذیت میں تڑپتی ہوئی بچی ہے جو جہالت کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسے صدر زرداری کی توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ صدر زرداری نے سیاسی کامیابیاں بہت حاصل کر لی ہیں۔ کچھ فلاحی اور جمہوری کامیابیاں بھی حاصل کر لیں تو تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ورنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ گورڈن برا¶ن کے تعلیمی انقلاب کے حوالے سے ملالہ کو یاد کیا تو صدر زرداری نے کہا کہ ہم نے اپنے بچوں اور بالخصوص بچیوں کو تعلیم نہ دی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تاریخ واقعی ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ بس یہ شرط لگا دی جائے کہ جہاں جہاں ملالہ کو یاد کیا جائے تو ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والی ملالا¶ں کو بھی یاد کیا جائے۔ شاید وہ ملالہ سے بھی زیادہ تعلیم کی خواہاں ہوں۔ ان کا علاج پشاور کے سی ایم ایچ میں ہی کرا لیا جائے۔ جنرل کیانی کی بجائے کوئی کرنل کیانی ان کی عیادت کر لے۔
معذرت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے پاس اگلے الیکشن میں لوگوں کے سامنے کچھ پیش کرنے کیلئے نہیں ہے مگر وہ بہت اعتماد سے بینظیر انکم سپورٹ کو اپنی الیکشن کمپین بنا سکتے ہیں۔ آج کل لوڈشیڈنگ بھی کم ہو گئی ہے۔ وزیراعظم پرویز اشرف کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ہی لوڈشیڈنگ کی انتہا کی تھی میں ہی اس کی ”ابتدا“ کر رہا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بینظیر انکم سپورٹ معاشی تحفظ کا ایک جامع پروگرام بن چکا ہے۔ وسیلہ¿ حق کے زیراہتمام بلا سود قرضے وسیلہ¿ روزگار کے تحت ہنرمندی اور ٹیکنیکل تربیت کی فراہمی ایک معرکہ آرائی ہے۔ اب تک امداد کے حوالے سے لاکھوں گھرانے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ عالمی طور پر بھی اس پروگرام کی ستائش کی گئی ہے۔ یہ نام فرزانہ راجہ نے صدر زرداری کی ہدایت پر کیا ہے اور دعائیں بینظیر بھٹو کو مل رہی ہیں۔
دور دراز علاقوں میں بھی مستحق لوگوں کو تلاش کیا گیا ہے۔ میانوالی کا خاص طور پر فرزانہ راجہ نے ذکر کیا۔ میرے لئے خوشی یہ ہے کہ میانوالی میرا ضلع ہے۔ صدر زرداری نے بھی پوچھا کہ میانوالی کا خاص طور پر ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ وسیلہ¿ علم کے حوالے سے خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ 2015ءتک ہر بچے کو تعلیم کی فراہمی کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگلے پانچ سال بھی پیپلز پارٹی کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لوگ اس حکومت سے نجات کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ایسے موقعے کی بات بنی تو اس کا کریڈٹ صدر زرداری کو جائے گا کہ ان جیسی سیاسی سکیمیں کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ صدر زرداری کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات کیلئے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے پاس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سوا لوگوں کو بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں۔
مجھے علم ہے کہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ایم پی اے بننے والی ایک جینوئن خاتون عائشہ جاوید نے مجھے 10 پرچیاں بھیجیں کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے جینوئن مستحق لوگوں کے نام دیں۔ میں حیران ہوا کہ اب عائشہ جاوید مسلم لیگ ن میں ہیں اور پیپلز پارٹی کے ایک پروگرام کیلئے نام مانگ رہی ہیں۔ عائشہ جاوید اس کے بعد کبھی ایم پی اے نہیں ہو گی کہ مسلم لیگ ن اسے ٹکٹ نہیں دے گی۔ وہ اب بھی ایم پی اے نہ ہوتی اگر ق لیگ میں شامل نہ ہوئی تھی۔ ق لیگ میں بھی اسے دھکیل کر بھیجا گیا۔ وہاں عائشہ نے بہت کام کیا۔ یہاں اس کیلئے کچھ بھی کام نہیں ہے مگر فرزانہ راجہ کو ضرور اسمبلی میں جانا چاہئے وہ اپوزیشن کے دنوں میں ایم پی اے تھیں اور انہوں نے جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف بہت ثابت قدمی سے جدوجہد کی تھی۔ ہم فوجی جمہوریت کے خلاف تھے۔ ہم سیاسی آمریت کے خلاف ہیں۔ عائشہ جاوید اور عارفہ خالد جیسی خواتین بھی مستحق ہیں کہ انہیں دوبارہ اسمبلی میں بھیجا جائے۔
یہ بات اسلئے مجھے یاد آئی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی شفافیت بیان کرنے کیلئے اس سے بڑی مثال میرے پاس کوئی نہیں۔ اس میں یہ کوشش تو ہوئی ہو گی کہ پیپلز پارٹی کیلئے ہمدردی رکھنے والوں کی مدد کی جائے مگر دوسری پارٹیوں کے لوگوں کیلئے کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی۔ الزام لگا کہ پیپلز پارٹی کے کروڑوں لوگوں کو نوازا گیا ہے تو فرزانہ راجہ نے کہا کہ کروڑوں لوگ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں تو پھر دوسری پارٹیوں میں بھی پیپلز پارٹی کے لوگ ہی ہوں گے۔ بینظیر بھٹو کو یاد رکھنے کی سیاست صرف یہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...