میموکیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نورکنی بینچ نے کی۔ حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست زیر التوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ حسین حقانی کو عدالت سے حاضری کااستثنیٰ نہیں دیا گیا تھا، انہوں نے عدالتی نوٹس پر چار روز کے اندرپیش ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنا چاہیے تھی، درخواست گزاروں کو پانچ دن میں اعتراض وجواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی،عاصمہ جہانگیرنے دلائل دئیے کہ چارروزکے اندرپیشی کا پابند کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، منصوراعجازکوبھی ویڈیولنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے حسین حقانی کوغدارقراردیا کہ وہ یہاں آکرمرجائیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیے کہ یہ کمیشن کی رائے ہے جس سے عدالت نے ابھی تک اتفاق نہیں کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ حسین حقانی کو پاکستان میں جان کا خطرہ ہے، اٹارنی جنرل ان کے مؤکل کی سکیورٹی اور واپسی کی یقین دہانی کرائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل پہلے ہی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ عدالت نے کبھی نہیں کہا کہ وہ ہمشیہ کے لیے یہاں آکررہیں، حسین حقانی آمد ،قیام اورواپسی تک سکیورٹی کے لیے سیکرٹری داخلہ کودرخواست دے سکتے ہیں۔