اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے ناصر الدین حقانی کو اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ناصر الدین حقانی کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ ناصر الدین حقانی کی نعش کو وزیرستان منتقل کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میرانشاہ میں ادا کی گئی۔ ناصر الدین کی گاڑی پر موٹرسائیکل سوار افراد نے فائرنگ کی۔ فائرنگ کا واقعہ اتوار کی رات پیش آیا۔ وہ ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے ترجمان طالبان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ناصر الدین حقانی جلال الدین حقانی کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ جلال الدین حقانی کے تین بیٹے امریکی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ناصر الدین حقانی جاں بحق ہونے والے چوتھے بیٹے ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے مالیاتی معاملات بھی دیکھتے تھے۔ ان کی عمر 35 سال تھی جبکہ ناصر الدین حقانی کو اسلام آباد میں ڈاکٹر کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ وہ ملا عمر کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ناصر الدین کا خاندان میرانشاہ میں ہے جبکہ ان کا اپنا گھر ڈانڈے درپا خیل میں واقع ہے۔ دو موٹر سائیکل سواروں نے اسلام آباد میں فائرنگ کر کے جاں بحق کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے ۔ ذرائع کے مطابق جلال الدین حقانی کے دو بھائی حاجی ابراہیم اور حاجی خلیل بھی کاروبار کے سلسلہ میں اسلا م آباد میں مقیم ہیں جبکہ ناصر الدین حقانی ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے اور وقتاً فوقتاً اسلام آباد آتے رہتے تھے۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ناصر الدین کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امریکہ کے کہنے پر پاکستانی ایجنسیوں نے قتل کیا ہم اس کا بدلہ لیں گے۔علاوہ ازیں آئی این پی کے مطابق ناصرالدین حقانی کی شناخت سے پیر کو اسلام آباد انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی ، اعلیٰ انتظامیہ اور حساس اداروں کے افسران کی دوڑیں لگ گئیں ، واقعہ کو چھپانے کی کوششیں، ذبیح اللہ مجاہد کے طور پر اسلام آباد کے مضافات میں بیٹھ کر کام کرنے کے انکشاف نے اعلیٰ حکام کے لئے مزید پریشانی پیدا کر دی، ناصر الدین حقانی کو شدید زخمی حالت میں پولی کلینک ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ طبی امداد ملنے سے پہلے ہی جاںبحق ہو گیا اور وہاں سے اس کی نعش کو ایک نامعلوم گاڑی میں آنے والے افراد لے کر فرار ہو گئے اور اسے راتوں رات شمالی وزیرستان پہنچا دیا۔ فائرنگ میں زخمی ہونے والا تنور کا ملازم فاروق جس کو پیٹ اور بازو میں ایک ایک گولی لگی تھی، آپریشن کر کے گولیاں نکال دی گئی۔ بہارہ کہو پولیس نے پیر کو رات گئے تک قتل کا مقدمہ درج نہیں کیا تھا اور پولیس واقعہ سے مسلسل انکار کر رہی تھی۔