اُستاد ناسخؔ نے کہا تھا …
لاکھ کافر کو کِیا، تُو نے مُسلمان‘ تاہم
ہے یہ افسوس کہ، تُو آپ مُسلمان نہ ہُوا
مُسلمان اور کافر کا معیار، ہر مُسلمان کا مختلف ہے۔ ہر فرقے کے مُسلمان کو، اُس فرقے کے عُلماء کی طرف سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ دوسرے فرقے کے مُسلمان کو کافر سمجھے۔ اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھے، رشتہ داری نہ کرے اور اگر ممکن ہو تو سماجی مقاطعہ بھی کر دے۔ شاعروں کا نُقطۂ نظر مختلف ہے، جیسا کہ حضرتِ آتش نے کہا …
کافر ہُو اے صنم، جو خریدے نہ، تُو اِسے
مہندی کے مول، خونِ مُسلماں ہے، اِن دِنوں
گذشتہ کئی سالوں سے ، جو لوگ خُودکش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں سے، پاکستان میں خونِ مُسلماں مہندی کے مول خرید رہے ہیں، وہ مذہبی جماعتوں خاص طور پر جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن گروپ)، جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق گروپ) اور جماعت ِ اسلامی کے نزدیک کافر نہیں، بلکہ مجاہدینِ اسلام ہیں اور ڈرون حملے میں مارا جانیوالا دہشت گرد اور حکومتِ پاکستان کو مطلوب اور مفرور حکیم اللہ محسود ’’شہید‘‘ ہے۔ حکیم اللہ محسود کو بیانگ دہل ’’شہید‘‘ امیر جماعت ِ اسلامی سیّد منور حسن نے قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے امریکی حملے میں مارے جانے والے کُتّے کو بھی ’’شہید‘‘ کے درجے پر فائز کر دیا اور شرمندہ ہونے کے بجائے تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ’’چونکہ، چنانچہ اور البتّہ کے لبادے میں، لیکن سیّد منور حسن کُھلم کُھلا یہ فیصلہ دے چُکے ہیں کہ ’’امریکی مفادات کے لئے لڑتے ہُوئے پاک فوج کے افسران اور جوان اگر اپنی جان دے دیں تو انہیں، شہید نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ جماعت ِ اسلامی اور جمعیت عُلماء اسلام کے دونوں گروپ ریاست کے باغیوں اور آئینِِ پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والوں، جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دینے والوں اور ہتھیاروں کے بل پر، پاکستان میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والوں کو 9 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں ’’اپنے لوگ اور" Stakeholders " تو تسلیم کروا چکے ہیں۔ اب اِس بات پر زور دِیا جا رہا ہے کہ قائدِاعظمؒ کی ’’وارث‘‘ مسلم لیگ کی قیادت ہر روز ہُونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے آنکھیں بند کر کے ’’تھلّے لگ کر بھی‘‘ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں سے مذاکرات کرے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان اور وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کے بیانات، عام طور پر امریکہ کی مذمت اور طالبان کی صفائی میں ہوتے ہیں۔
جولائی 2007ء کے اوائل میں اسلام آبادکی لال مسجد میں چُھپے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں جو 11 فوجی افسران اور جوان شہید ہُوئے تھے۔ اُن کے بارے میں 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں متحدہ مجلسِ عمل کے صدر اور امیر جماعت ِ اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن اور رُکن مولانا عبدالغفور حیدری نے، ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ’’شہید‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ حیرت ہے کہ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) نے اِس قابل مذمت بیان کا اُن دِنوں نوٹس کیوں نہیں لِیا؟ اگر اُس وقت آئی ایس پی آر حرکت میں آ جاتا تو سیّد منور حسن، مولانا فضل الرحمن دوبارہ اِس طرح کی حرکت نہیں کر سکتے تھے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں امیر جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن کی طرف سے دہشت گردوں کو شہید قرار دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہُوئے، اسے غیر ذمہ دارانہ، افسوسناک اور گمراہ کُن بیان قرار دِیا اور کہا ہے کہ ’’انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے پاک فوج کے افسران اور جوانوں اور بے گناہ اور معصوم شہریوں کی توہین کی ہے۔ سیّد منور حسن معافی مانگیں اور جماعت ِ اسلامی بھی اپنی پوزیشن واضح کرے۔‘‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’سیّد منور حسن نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ’’شہید‘‘ کے بارے میں نئی منطق وضع کی ہے۔‘‘ صبا لکھنوی کہتے ہیں …
خطِ قسِمت پڑھا نہیں جاتا
صِرف منطق تمام کرتے ہیں
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ بات واضح ہے کہ ریاست کا دشمن کون ہے؟ شہداء اور اُن کے خاندانوں کی قربانیوں کو کسی کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ اُدھر سیّد منور حسن اپنے مؤقف پر اڑے ہُوئے ہیں۔ اٹک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنے مؤقف پر قائم ہُوں۔ مَیں طالبان سے لڑائی میں مارے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو شہید نہیں سمجھتا، حکیم اللہ محسود کو پاکستان نے امریکہ کی ایما پر دھوکے سے قتل کرایا۔‘‘ جماعتِ اسلامی کے ترجمان فرید احمد پراچہ نے فی الحال امیر جماعتِ اسلامی کے مؤقف کو اُن کا ذاتی مؤقف قرار دِیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، پیپلز پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ بلاول بھٹو، سیّد خورشید شاہ، عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان اور اہلِ سنت و الجماعت اور شیعہ تنظیموں کے عہدیداروں نے، سیّد منور حسن کے بیان کی مذمت کی ہے۔
جماعت ِ اسلامی صوبہ خیبر پی کے میں تحریکِ انصاف کے ساتھ شریکِ اقتدار ہے، اِس لئے عمران خان کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن مسلم لیگ ن کے قائدین شاید اِس تنازع کو جماعت ِ اسلامی اور پاک فوج کا تنازع سمجھتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ سیّد منور حسن دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کی وجہ سے، وفاقی حکومت پر طالبان کے دبائو کی وجہ سے ’’بُھوترے‘‘ ہُوئے ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی وہ پاک فوج اور شہدا کے لواحقین سے معافی تو نہیں مانگیں گے، منورحسن معافی نہیں مانگیں گے تو جماعت ِ اسلامی عوام کی نفرت کا شکار ہو جائے گی۔ ووٹ بنک تو پہلے ہی محدود ہے، پھر’’کنگال بنک‘‘ بن جائے گا۔ جماعت ِ اسلامی یہ خطرہ مول لے سکتی ہے؟ اگر نہیں تو سیّد صاحب کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ لاہور کے ایک معروف ماہرِ تعلیمات سیّد یوسف جعفری نے کہا ہے کہ ’’اگر منور حسن صاحب سیّد ہیں تو اپنے جّد امجد سیّد اُلشُہدا حضرت امام حسینؓ کی روح سے معافی مانگیں کہ انہوں نے محرّم کے مہینے میںغلط تاویل کر کے ’’شہید‘‘ کی اصلاح کی بے حرمتی کی ہے۔ یوں بھی منور حسن صاحب کوئی سند یافتہ مفتی یا تسلیم شدہ قاضی بھی نہیں کہ وہ اِس طرح کا کوئی فتویٰ دے سکیں کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔‘‘
اُدھر خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت کالعدم تحریکِ طالبان کے نئے سربراہ مُلا فضل اللہ کے سُسر اور مختلف جرائم میں سزا یافتہ کالعدم تحریک ِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے امیر صوفی محمد کی رہائی پر غور کر رہی ہے۔ خبر کے مطابق حکومت مولانا سمیع الحق سے رابطہ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام اور بے شمار مشکلات میں گھری ہوئی حکومت اور پاک فوج میں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو، مفلوک الحال اور دہشت زدہ عوام کا کیا ہو گا؟ سیّد منور حسن صاحب! آپ نے ’’جُرم ِتوہین شہادت‘‘ کا ارتکاب کر کے، جلتی پر تیل کیوں چِھڑک دِیا ہے۔