کیا حکومت ”آبیل مجھے مار“ والی پالیسی پر گامزن ہے؟

Nov 12, 2014

اداریہ

پنجاب اور اسلام آباد میں چار ماہ کیلئے صنعتوں اور سی این جی سٹیشنوں کی گیس بند کرنے کا عاقبت نااندیشانہ فیصلہ

وزارت پٹرولیم نے موسم سرما کیلئے گیس لوڈمینجمنٹ پلان کی منظوری دے دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے اسلام آباد سمیت پنجاب میں چار ماہ کیلئے سی این جی سٹیشنز اور انڈسٹری کو گیس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے اس سلسلہ میں بتایا کہ پنجاب میں 15نومبر سے آئندہ سال 15 مارچ تک سی این جی سٹیشنز اور انڈسٹری کو گیس فراہم نہیں کی جائیگی جبکہ سندھ‘ خیبر پی کے اور بلوچستان میں معمول کے مطابق گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔ انکے بقول گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی اولین ترجیح ہو گی جن کیلئے کھانا پکانے کے اوقات میں گیس فراہمی بہتر رکھی جائیگی۔ دوسری طرف آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن نے پنجاب میں چار ماہ کیلئے سی این جی سٹیشنز کی بندش کا حکومتی فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے کہا کہ ہم حکومت کو چار ماہ کیلئے سی این جی سٹیشن بند نہیں کرنے دینگے۔
ہمارا شروع دن سے یہ المیہ رہا ہے کہ ملک میں توانائی کے قدرتی وسائل کی وافر مقدار میں موجودگی کے باوجود کسی بھی دور حکومت میں ان قدرتی وسائل سے صحیح معنوں میں استفادہ کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی‘ نہ ہی ان ذخائر کے بے جا ضائع ہونے کی پرواہ کی گئی ورنہ قدرت نے اس سرزمین کو گیس‘ تیل‘ کوئلہ اور دھاتوں کی شکل میں بے پناہ وسائل سے جس طرح مالا مال کیا ہے‘ بہتر منصوبہ بندی اور ذخائر کی دستیاب مقدار کا تخمینہ لگا کر انکے استعمال کی آئندہ کم از کم پچاس سال تک کی جامع حکمت عملی طے کرکے اس ملک خداداد کو بھی تیل برآمد کرنیوالی عرب ریاستوں اور ایران‘ عراق کی طرح اقتصادی ترقی اور عوامی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کیا جا سکتا تھا۔ ہماری بے تدبیریوں نے سندھ اور بلوچستان میں تیل کے کنویں دریافت ہونے کے باوجود ان سے استفادہ کی نوبت نہ آنے دی۔ دریاﺅں کے وافر پانی کی شکل میں موجود ہائیڈل بجلی کے اہم ترین ذرائع کو بھی بروئے کار لانے میں عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا گیا اور سیاسی دکانداریاں چمکا کر کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کی نوبت نہ آنے دی گئی۔ اسی طرح بلوچستان میں سوئی کے مقام پر موجود قدرتی گیس کے ذخائر کی شکل میں قدرت نے ہمیں قیمتی خزانوں سے مالامال کیا ہوا ہے‘ ماہرین کی رپورٹوں کے مطابق گیس کے ان ذخائر کو بہتر منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لایا جاتا تو تقریباً ڈیڑھ سو سال تک یہ ذخائر پورے ملک کی گیس کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے کافی تھے مگر اس قدرتی خزانے پر بھی سیاست کی گئی۔ بلوچ قوم پرستوں نے قدرت کے ودیعت کردہ اس خزانے پر اپنا حق جتاتے ہوئے انہیں اپنی دستبرد میں لانے کی سازشوں کو پروان چڑھایا اور صوبائی منافرت کو ہوا دی۔ وفاقی حکومت سے گیس کی رائیلٹی طلب کی اور وقتًا فوقتاً رائیلٹی میں اضافہ کیلئے اپنے تخریبی منصوبوں کے ذریعے وفاقی حکومت پر دباﺅ بڑھایا جاتا رہا۔ تخریب کاری کی اس سیاست سے‘ جس کے تحت گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ گیس کا بے پناہ ضیاع ہوا جبکہ حکومتوں کی بے تدبیری سے اس معاملہ میں آج تک مفاہمت کی بھی کوئی راہ ہموار نہیں ہو سکی۔
گیس کے ضیاع کا یہ معاملہ تو اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ سوئی کے ذخائر میں دستیاب گیس کو بھی ہر حکمران نے اپنی اپنی سیاسی ترجیحات اور اقرباپروری کے تحت بے دریغ استعمال کرنے میں کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس معاملہ میں قومی وسائل کی عملاً لوٹ مار کی گئی۔ اگر شروع دن سے ہی قدرتی گیس کو صرف گھریلو صارفین تک محدود رکھنے کی دوررس نتائج والی حکمت عملی اختیار کی جاتی تو گیس کے یہ ذخائر ہماری آنیوالی سات نسلوں تک کیلئے کافی تھے مگر پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کی حکومتوں سمیت ہر حکمران نے اپنے پیاروں کو نوازنے اور سیاسی مخالفین کو سیاسی رشوت کے ذریعے مغلوب کرنے کی حکمت عملی کے تحت قدرتی گیس کو سی این جی سٹیشنوں کے ذریعے ٹرانسپورٹ میں استعمال کرنے کی پالیسی وضع کی جو ہلکی گاڑیوں سے چلتے چلتے بھاری گاڑیوں تک پہنچ گئی جبکہ سی این جی سٹیشنوں کے لائسنس ریوڑیوں کی طرح فروخت کئے گئے‘ نتیجتاً ہر چار سو گز کے فاصلے پر سی این جی سٹیشن قائم ہو گئے۔ پٹرول سے نسبتاً سستی ہونے کے باعث سی این جی ہر شخص کی ضرورت بن گئی‘ چنانچہ لوگوں نے اپنی گاڑیاں پٹرول سے سی این جی پر منتقل کرالیں جبکہ بعدازاں گاڑیاں بھی سی این جی ماڈل تیار ہونے لگیں چنانچہ گیس کے اس بے رحمانہ استعمال سے گیس کے ذخائر میں کمی واقع ہونا فطری امر تھا۔ گیس کا یہ بحران گزشتہ دہائی سے شروع ہوا جو اب انتہاءتک پہنچتا نظر آتا ہے چنانچہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی سی این جی سٹیشنوں پر گیس کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کا تسلسل آج مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی برقرار ہے۔ اسی طرح صنعتوں کو گیس پر منتقل کرنے کی پالیسی نے بھی گیس کے ذخائر میں بتدریج کمی کی۔
اس سہولت سے ہر شعبہ زندگی کو مستفید ہونے دینے میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے بشرطیکہ دستیاب ذخائر کو پیش نظر رکھ کر انکے استعمال کی بہتر حکمت عملی طے کی جائے مگر ہماری گورننس کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے جس میں مستقبل کا سوچنے کا کوئی چلن ہی اختیار نہیں کیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ گیس کی کمی کا سامنا کرتے ہوئے بھی متبادل ذرائع سے گیس حاصل کرنے کی کوئی ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کی منصوبہ بندی طے ہوئی تھی جس کیلئے ہوم ورک بھی کرلیا گیا اور کراچی پورٹ سے اس گیس کی ملک کے دوسرے علاقوں میں ترسیل کیلئے پائپ لائن بچھانے کا منصوبے بھی طے کرلیا گیا مگر اس منصوبے پر آج بھی کوئی عملی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہے اور اب پاکستان ایران تعلقات میں پیدا ہونیوالی سرد مہری کے باعث عملاً یہ منصوبہ ختم ہو چکا ہے‘ نتیجتاً ان ساری حکومتی بے تدبیریوں کا بوجھ پاکستان میں موجود سوئی گیس کے سیکٹر پر پڑا جبکہ اس میں بھی گیس مینجمنٹ کرتے ہوئے سیاسی مجبوریوں اور مفادات کو پیش نظر رکھا گیا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو سزا دینے کیلئے پنجاب کو گیس کی ترسیل کیلئے امتیازی سلوک کیا گیا اور صنعتوں اور سی این جی سٹیشنوں کی گیس بند کی جاتی رہی جس پر اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف وفاقی حکومت کیخلاف سراپا احتجاج بنے نظر آتے تھے۔ اب مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہے تو اب سیاسی مجبوریوں کے تحت گیس کی ترسیل کے معاملہ میں پنجاب کے ساتھ سوتیانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور اسکے برعکس دوسرے صوبوں کو گیس کی فراہمی کے متعینہ شیڈول کو چھیڑا تک نہیں گیا۔ اصولی طور پر تو پنجاب کے ساتھ اس امتیازی سلوک کے تسلسل پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو پہلے ہی کی طرح وفاقی حکمرانوں کیخلاف سراپا احتجاج بنے نظر آنا چاہیے‘ مگر وہ اس معاملہ میں مسلم لیگ (ن) کی خراب حکمرانی کے باوجود مصلحتاً چپ سادھے بیٹھے ہیں حالانکہ گیس مینجمنٹ کی اس پالیسی سے صنعتیں اور سی این جی سٹیشن بند ہونے کے نتیجہ میں لاکھوں مزدور بیٹھے بیٹھے بے روزگار ہو رہے ہیں جن کا اضطراب حکومت کیلئے ایک نیا سیاسی بحران کھڑا کر سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں صنعتوں کا پہیہ جامد ہونے سے روزمرہ استعمال کی اشیاءاور برآمد کی جانیوالی مصنوعات کی پیداوار ختم ہو گی تو اس سے ملکی معیشت کو بھی سخت دھچکا لگے گا اور بیرون ملک کی مہنگی اشیاءخریدنے پر مجبور ہونیوالے عوام حکمرانوں سے مزید بدگمان ہونگے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جن گھریلو صارفین کو گیس کی سہولت برقرار رکھنے کے نام پر پنجاب اور اسلام آباد میں چار ماہ کیلئے صنعتوں اور سی این جی سٹیشنوں کی گیس بند کی جا رہی ہے‘ وہ صارفین بھی گیس کی قلت کو ذہنی اذیت کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت گیس کی ڈیمانڈ 16 سو ملین کیوبک فٹ سے بڑھ کر 24 سو ملین کیوبک فٹ ہو چکی ہے جس کے باعث گیس کی شدید ترین قلت پیدا ہوئی ہے اور لوگوں کے گھروں میں بجلی کے بعد گیس کا بھی غائب ہونا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح سی این جی سٹیشنوں کے بند ہونے سے انکے مالکان کو اربوں روپے کا نقصان ہو گا جس کا جائزہ لیتے ہوئے ہی سی این جی سیکٹر میں اس حکومتی پالیسی کیخلاف اضطراب کی لہر اٹھ رہی ہے جو کسی بڑے طوفان پر منتج ہو سکتی ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ اسکی پالیسیوں سے نالاں عوام نے عمران خان اور طاہرالقادری کے حکومت مخالف ایجنڈے کو تقویت پہنچائی ہے جس سے حکومت بمشکل تمام بچ پائی ہے تو پنجاب میں گیس کی بندش سے پیدا ہونیوالے نئے بحران سے حکومت کیلئے کتنے مزید مسائل کھڑے ہونگے۔ اگر تمام صوبوں کیلئے گیس مینجمنٹ کی مساوی پالیسی مرتب کی جاتی تو شاید پنجاب کے عوام میں اضطراب پیدا نہ ہوتا مگر حکومت تو آبیل مجھے مار والی پالیسی پر کاربند نظر آتی ہے اس لئے حکومت کو اسکے ممکنہ نتائج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔

مزیدخبریں