لو بسنت آئی، رنگ برنگے پتنگ اڑے فضا رنگوں نعروں سے معمور ہوگئی، مانجھے کی ڈور یعنی قیمہ نان، بریانی، چائے مشروب چاہ ساتھ میں فری، پتنگ کی قیمت تین ہزار سے شروع ہوئی سات ہزار (کہیں اس سے بھی زیادہ) تک پہنچ گئی، آخری رات یعنی چاند رات ایک لاکھ کے دس پتنگ بکے۔ جمہوریت کا خوبصورت چہرہ الیکشن کی روح پرور حسینہ! واہ تیرے جلوے!اصولوں کے چائے، اخلاق کے مارے، اعلیٰ اقدار کے علم بردار سفید پوش فی سبیل اللہ ووٹ دینے والے سوچ رہے ہیں ضمیر کی آواز کا لیکچر تبدیلی کے پرکشش آوازے کس کام کے رہے اصل فیصلہ تو نوٹوں نے کیا، پتنگ بازنے جن کو پیسے دیکر مونڈا وہی بھیڑیں آخر دم تک عزیزاز جان رہیں۔ہماتڑ خود چل کر آئے اور قومی فریضہ ادا کر کے چلے گئے نہ ختم نہ درود! جنہوں نے وصولیاں کیں ان کو اقدام سے لایا گیا ٹیوناسک کی کراکری کی طرح پیکنگ پر FRAJILE لکھ کر احتیاط سے رکھا گیا، خلیل خاں نے فاختوں کے بجائے اردگرد منڈلاتے کوئوں کو اڑایا۔ بہرحال رزلٹ کو کمبل کی کناری پر چمکتی بیل منڈی روزی سے کاڑھی گئی۔ سلمیٰ ستارہ کہیں کہیں الیکشن کے عملے نے اضافی لگا دیا۔
ایک ملنے والے نے بتایا کہ فیملی کے پانچ ووٹ پچیس ہزار لائے ہفتہ بھر کا راشن علاوہ ازیں روزانہ کھاجا ماجا پورا دورانیہ، غریب کو اور کیا چاہیے۔ تین سو روپے دیہاڑی والے کو تین ماہ کی اجرت بیٹھے بٹھائے مل جائے تو عید بن گئی۔ نصیحت کرنے والے نے سنا تو کہا ووٹ بیچا کفر کیا۔ ضمیر بیچا قومی امانت میں خیانت کی، مریض عشق نے جواب دیا۔
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
کہنے لگا جناب چھانگا مانگا بھول گئے؟ بریف کیس، سوٹ کیس، پھر سندھی بوریاں کشتیاں لانچیں کرنسی نوٹوں ڈالروں سے بھری۔ پے در پے کتنے الیکشن ہو چکے کچھ بدلا۔ ناں پتنگ والوں کے بنک بیلنس اور جائیدادیں اندر باہر کئی گنا بڑھ گئیں۔ ایوانوں دفتروں میں کیا ہو رہا ہے۔ انصاف کے گنبد کے اردگرد ترازو کے آس پاس! اختیار اور کاغذ کی بھول بھلیوں میں کیا کیا معمے کیسے بنائے اور سلجھائے جاتے ہیں۔ جب ہر طرف ہر جگہ آخری فیصلہ نوٹ کرتا ہے تو ہم ووٹ کی پرچی کو بے قیمت کیوں پھینک دیں، ریت، مٹی کی ٹرالی، کوڑے کا ٹرک کچرے کا ڈرم سب کچھ بکائو مال ہے ایسے میں ووٹ کی پرچی ضائع کردیں؟ اس پرچی میں آخری رات پتنگ باز کی جان اٹکی ہوتی ہے۔ آخری رات ہی قربانی کا بکرا صحیح مول دیتا ہے اس بار آخری رات تو موٹر سائیکلیں بھی نچھاور ہو گئیں۔ اپنے مخاطب کی باتیں سن کر ہکا بکا رہ گئے مگر اس نے حیرانی میں مزید اضافہ کردیا، کہنے لگا دیکھو ابھی چھوٹا رزلٹ آیا ہے چیئرمینی میئر شپ کے امیدواروں کی جانب سے کونسلروں کو آفرز آ رہی ہیں۔ من پسند کااے لو‘ بنک بیلنس بنا لو۔ قسمت کو چار چاند لگا لو خرچے کا سو گنا اٹھا لو! اسی مکالمے کے دوران ہمارے انقلابی دوست ملا عارفی آن ٹپک پڑے کہنے لگے! یہ جمہوریت نہیں انقلاب کی مدھم سر ہے دیکھو کتنا پیسہ جیبوں سے نکل کر مارکیٹ میں آ گیا جل تھل ہو گیا، گٹر چل پڑے، بڑی عید سے زیادہ معاشی ایکٹیویٹی ہوئی یہ کسی تہوار سے کم تھا کیا؟ پورا مہینہ ہنڈیا لمحے بھر بھی چولہے سے نیچے نہیں اتری! رونقاں ای رونقاں موجاں ای موجاں! دوزخی پیٹ کو جنت کے ذائقوں کا کچھ حصہ تو ملا۔ خدا کرے! جمہوریت کا آفتاب ہر چھ ماہ بعد طلوع ہو دولت کے چھوٹے بڑے گلیشئر کو بخار چڑھے موسم کی تمازت سے برف پگھل کر ندیاں نالے سیراب ہوں میلے کی چھٹا شرینی عوام الناس تک پہنچے کسی کے ہاتھ پتاشا آئے کسی کے ہاتھ مکھانا۔ قسمت نہ بدلے منہ کا ذائقہ تو بدلے۔ مگر اب جو چلن پڑا ہے یہ پتاشے مکھانے سے آگے کی بات ہے۔ پانچ ہزار کے نوٹ سے پچاس ہزار کے موٹرسائیکل تک گیم کے اصول بدل گئے اور قیمت بھی! برادری قبیلہ اپنی جگہ مگر جہاں چلے گا نوٹ وہاں پڑیں گے ووٹ! ہم نے ملا سے پوچھا! یہ جو اتنی تعداد کثرت میں آزاد جیت گئے ہیں اس حقیقت کے پیچھے کیا قوت محرکہ اور فلسفہ ہے۔ پیسہ! یہی تو تبدیلی آئی ہے، مہنگائی نے بڑے بڑوں کو نیا چلن سکھا دیا ہے اسے کہتے ہیں دنیا کتاب روزنامہ استاد ہوتے ہیں، وہی میئر جس کے انتخاب کا چرچا ہے۔ اس کیلئے مہمان گھوڑوں کو موٹر کار پھر ہوائی جہاز! یاروں کی مار بیرون ملک تک ہے! موٹر سے مراد موٹر نرو بھی ہے یعنی رگ حیات! اب یہ آزاد کیا گل کھلائیں گے جانتے ہو؟ عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کسی پارٹی میں گھس کر یا باہر رہ کر! بے چاری پارٹیاں تیار بیٹھی ہیں، باغیوں اور آوارہ مزاجوں کو سر پر بٹھانے کیلئے۔ شاید ہماری سیاست کا المیہ بھی یہی ہے جیت کے آجائے تو گھر گھاٹ آفر۔ کسی آزاد فاتح سے کسی نے پوچھا آپ کے آئندہ کیا ارادے ہیں؟ فرمانے لگے! مطلقہ اور خلع والی دونوں بیویاں اشارے کررہی ہیں جو زیادہ مال کی آفر کریگی اس کی طرف رجوع کروں گا، اب ایسے میں جو گل کھلے گا ظاہر ہے، سب سے چھوٹے بانڈ کا بڑا انعام تین سو پچاس گنا ہوتا ہے۔ یہ بانڈ سے بڑی لاٹری ہے۔ نہ شیر جیتا ہے نہ بلا نہ ترازو نہ تیر! بلکہ جیتا ہے لُڈو دانہ! کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے! اشرافیہ کا کھیل تماشا شوق ہے شکار! اور پنکھ پنکھیرئوں کا شوق ہے شکار ہونا مگر ہلے گلے کھاجے ماجے میلے ٹھیلے شور شراب میں کھپ کر! جمہوریت کی بارات پر دھن دولت برسے تو عوام نعرہ زن ہوتی ہے کھپے کھپے دولت کھپے! پھر کچھ ٹکے آنے پر جیالے متوالے کے حصے میں آ ہی جاتے ہیں اور کچھ نہیں تو بینرز کا کپڑا یا جھنڈے کا ڈنڈا ہی سہی! یعنی بہ مصداق مثل ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘!